islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook


خوف و امید


13534
تفصیل
اللہ تعالیٰ نےجہنم کو پیدا کیا اور اپنے بندوں کو اس سے ڈرایا تاکہ وہ اس سے ڈریں اور جنت پیدا کی اور اس کی رغبت دلائی تاکہ وہ اس سے اس کی امید رکھیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا خوف ہی دلوں کو ہراچھے کام کی طرف لے جانے والا ہے اور ہر برے کام سے روکنے والا ہے۔ اور امید ہی بندے کو اللہ کی خوشنودی اور اس کے ثواب کی جانب رہنمائی کرنے، نیک اعمال کی طرف لے جانے والی اور برے کاموں سے اسے پھیر نے والی ہے ۔

إن الحمد للہ، نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسیئات أعمالنا، من یھدہ اللہ فلامضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لہ شریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) [آل عمران: 102]

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ) [النساء: 1]

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا 70 يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) [الأحزاب:70 - 71]

أما بعد! فإن أصدق الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی، ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ فی النار۔

وقال اللہ سبحانہ وتعالی:

( إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ) [آل عمران: 175]

“یہ خبر دینے والاصرف شیطان ہی ہے، جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو”۔

معزز سامعین کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! بطور یاد دہانی عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتیں دے رکھی ہیں اور اس کے ساتھ اس کی مہربانیاں بہت ہیں؛ لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور مہربانی یہ ہے کہ اس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا۔ اس پر ہمیں صرف زبان سے ہی نہیں؛ بلکہ دل سے بھی اللہ کا شکر اداکرنا چاہئے۔ کیونکہ دل کی باتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جبکہ دل ہی سے اخلاص کا تعلق ہے اور زبان دل کی تابع ہے۔ جب دل اللہ کے مخلصانہ شکر سے معمور ہوگا تو اس کی تابع زبان سے نکلے ہوئے الفاظ شکر بھی مخلصانہ ہوں گے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ دل اعضائے جسم کا بادشاہ ہے، اور اعضاء اس کے لشکر ہیں۔ بادشاہ صحیح ہو، تو صحیح احکام صادر کرےگا، اور اس کے لشکر بھی صحیح کام کریں گے۔ اگر بادشاہ صحیح نہ ہو، تو اس کے احکام اور اس کے لشکر کے کام کےصحیح ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی، درج ذیل حدیث سے اس کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (ألا وإن فی الجسد مضغۃ إذا صلحت صلح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب) (البخاری، کتاب الإیمان، باب فضل من استبراء لدینہ)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اس با ت کو غور سے سنو ! یقین کرو کہ جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ جب تک وہ ٹھیک رہتاہے پورا جسم ٹھیک رہتا ہے ؛ لیکن جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو پو را جسم خراب ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو کہ گوشت کا وہ ٹکڑا «دل» ہے۔

لہذا اللہ کے کسی بندے سے اچھے کام کی، یا اللہ پر صحیح عقیدہ رکھنے کی امید، صرف اس صورت میں کی جا سکتی ہے، جب اس کا دل صحیح ومستقیم ہو۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث میں آیا ہے:

عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: (لایستقیم إیمان عبد حتی یستقیم قلبہ) (مسند أحمد)

“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا دل صحیح ودرست نہ ہو۔”

اور دل کے صحیح و درست ہو نے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید کا اعتقاد رکھا جائے ، اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت رکھی جائے، اس سے خوف کیا جائے یعنی ڈرتے رہا جائے۔ نیز اسی سے اپنی مرادیں پانے کی امید رکھی جائے، اس کی فرماں برداری دل و جان اور محبت سے کی جائے اور اس کی نا فر مانی سے نفرت کی جائے۔

دل کی اہمیت پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مروی ایک حدیث میں آیا ہے:

(قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ لا ینظر إلی صورکم و أموالکم؛ ولکن ینظر إلی قلوبکم وأعمالکم) (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری شکل وصورت اور مال و دولت کی طرف نہیں دیکھتا ؛ وہ صرف تمہارے دلوں اور عملوں کی طرف دیکھتاہے۔”

ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ انسان کی زندگی و موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور اسی اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں اب تک باحیات رکھ کر اپنا ہفتہ وار اجتماعی شکریہ اداکرانے کے لیے جمعہ کے دن، اپنے مبارک گھر میں جمع ہونے کی توفیق دی۔

فلہ الحمد والشکر بالغدو والاٰصال، ملأ السماوات والأرض وملأ ما شاء من شیئ یرضاہ۔

اللہ نے انسان کو پیدا کر کے اسے دنیا کی عارضی زندگی گزارنےکے لیے اسلام کی شکل میں ایک نظام یا دستور بھی عطا فرمایا، اور اس دستور کی عملی تشریح کے لیےوقفے وقفےسے رسول مبعوث فرماتا رہا۔ اسی اسلام یا نظام زندگی کو آخری واکمل شکل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آ خری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماتے ہوئے کہا:

( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ) [المائدة: 3]

“آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا، اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔”

یہ مکمل اسلام یا مکمل نظام زندگی قرآن کریم کی شکل میں اور اس کی تشریح و تبیین حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے، جس کے مطابق اللہ کی توفیق سے عمل کرتے ہوئے وہ اس دنیا میں ایک شریف وکامیاب زندگی گزارسکتے ہیں، اور اپنی آخرت کی زندگی بھی سنوارسکتے ہیں۔ ایسی ہی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کرنا سکھایا:

( رَبَّنَا آَتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآَخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) [البقرة: 201]

“اوربعض لوگ وه بھی ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے”۔

یہی ہے دنیا وآخرت میں بھلائی حاصل کر نے کا راستہ، جسے قرآنی تعبیر میں صراط مستقیم کہا گیا ہے،اور جو سوہ ٔفاتحہ کی ایک آیت کا اہم جزء ہے، جسے ہر نماز کی ہر رکعت میں امام و مقتدی ہر ایک کو پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض بتایا ہے، اوررسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

دنیا وآخرت کی کا میابی کا راستہ پاجانے کے باوجود آپ کو برابر ہو شیار رہناہوگا، تا کہ شیطان اور اس کے کارندے آپ کو اللہ اور اس کےرسول کے بتائے ہوئے صراط مستقیم سے نہ بھٹکا سکیں۔ کیو نکہ شیطان ہمیشہ اللہ کے مومن بندوں کا دشمن رہا ہے، اور آئندہ رہےگا بھی۔ وہ کمزور ایمان والوں کو کا فر وں سے خوف دلا کر راہِ راست سے بھٹکا نے کی کوشش کرتا رہتاہے۔ جیسا کہ معر کۂ احد کے بعد کیا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ) [آل عمران: 175]

“یہ خبر دینے والاصرف شیطان ہی ہے، جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرو، اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو۔”

اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دل میں صرف اللہ کا خوف رکھیں۔ تو حید اُلوہیت کے سلسلے میں جہاں ہمیں دل کے اندر اللہ کا خوف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہیں ہمیں اللہ سے رجا وامید بھی وابستہ رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ بھی اللہ کی ایک مطلوبہ عبادت ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ناامیدی کو گمراہی قراردیا گیا ہے:

( قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ) [الحجر: 56]

“کہا اپنے رب تعالیٰ کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراه اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں۔”

اللہ کے تعلق سے اس خوف و رجا کی حقیقت ہمیں جان لینا ضروری ہے، تا کہ مطلوبہ خوف و رجا کے نشیب وفراز سے ہم واقف رہیں، اور اس سلسلے میں ممکنہ لغزشوں سے بچ سکیں۔ یہ خوف اللہ کی عبادت کی متعدد اقسام میں سے ایک قسم ہے، اور اسی طرح رجایا امید بھی عبادت ہی کی ایک قسم ہے، اور یہ دونوں توحید اُلو ہیت کی علامتیں ہیں ۔ مطلوبہ خوف یا ڈرکا مطلب یہ ہے کہ دل میں خدا کے خوف سے ایک قلق واضطراب کی ایسی کیفیت ہو جس سے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ حرام کے ارتکاب کرنے، واجب کےترک کردینے اور مستحب سے رو گردانی کرنے پر، اللہ کا عذاب لاحق ہوسکتا ہے، اور یہ اندیشہ بھی ہو کہ انہی وجوہات کی بنا پر ممکن ہے کہ اللہ اس کے عمل صالح کو بھی قبول نہ کرے۔ دل میں یہ احساس پیدا ہو نے پر اس کا نفس برائی سے متنفر ہوکرمحرمات سے رک جاتاہے اور بھلا ئی کی طرف سبقت کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ لیکن یہی خوف اگر زیادہ ہو جائے اور حدسے تجاوز کرجائے تو یاس وناامیدی سے بدل جاتاہے، جو گناہ اور گمراہی ہے۔ جیسا کہ سابق الذکر آیت سے واضح ہے۔

خشیت، رہبت اور ہیبت ، یہ سب الفاظ خوف ہی کے متقارب ہیں۔ لیکن یہ اس کےمرادف نہیں، خوف عام ہے اور خشیت اللہ تعالیٰ کی بہت ساری صفتوں کے علم سے مزین ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ) [فاطر: 28]

” اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ “

چونکہ لفظ “ خوف وڈر “ عام ہے، اور سطور بالا میں بتاگیا ہے کہ اللہ سے ڈرنا ایک عبادت ہے، اور عبادت صرف اللہ کے لیے ہونی چاہئے۔ اگرکوئی عبادت غیراللہ کے لیےیا کسی بھی مخلوق کے لیے ہو تو وہ شرک ہے۔ اور شرک کرنے والا مشرک قرارپاتاہے۔ اور مشرک کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ممکن ہے کہ اس بیان سے کچھ عوام الناس کو غلط فہمی ہو جائے۔ اور وہ اس طرح کہ جب اللہ کا خوف یا اللہ سے ڈرنا اللہ کی عبادت ہے تو کیا کسی مخلوق کا خوف یا اس سے ڈرنا اس مخلوق کی عبادت ہو جائےگی؟ جیسے شیر،مگرمچھ، سانپ یا پاگل کتے سے ڈرنا وغیرہ۔ کیا ان چیزوں سے ڈرنا ان کی عبادت و شرک میں داخل ہے؟ اس غلط فہمی کا ازالہ بہت ضروری ہے تاکہ عوام الناس کا مذکورہ شبہ دور ہو جائے۔ پہلے بتایا گیا ہے کہ لفظ “خوف” عام ہے۔اس میں شرعی اورطبعی خوف دونوں شامل ہیں۔ اللہ سے خوف ہو نا شرعی خوف ہے اور یہی شرعی خوف ہی عبادت ہے، جو کسی مخلوق کےلیے نہیں ہو نا چاہئے، ورنہ شرک ہو جائےگا۔ لیکن کسی درندہ یا جانورسے خوف کھانا، یہ طبعی خوف ہے، اور خوف طبعی عبادت شمار نہیں ہوتا۔ لہذا کسی درندہ سے ڈرنے کو نہ عبادت کہا جائےگا، اور نہ اس سے شرک لازم آئےگا۔

امید ہے کہ مذکورہ غلط فہمی یا شبہ بفضل اللہ تعالیٰ وتوفیقہ دور ہو گئی ہو گی،فالحمد للہ۔

إن الحمد للہ، نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسیئات أعمالنا، من یھدہ اللہ فلامضل لہ،ومن یضلل فلا ھادی لہ، وأشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لہ شریک لہ، وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ:

أما بعد! قال اللہ سبحانہ وتعالی:

( إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ ) [فاطر: 29]

وقال: ( إِنَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَةَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ 218 ) [البقرة: 218]

ان دونوں آیتوں کے معانی بالترتیب یوں ہیں:

”جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیده اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وه ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خساره میں نہ ہوگی۔”“البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الہٰی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والااور بہت مہربانی کرنے والاہے۔”

رجا یا امید کا مطلب یہ ہے کہ نیک کام پر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب پانے کی آرزو یا چاہت رکھی جائے۔ لیکن اس کے لیے پہلے اللہ کی راہ میں خلوصِ نیت کے ساتھ ایسا اچھا عمل پیش کرنا ضروری ہے، جو شرعی طور پر بھی اچھا ہو، نیز محرمات سے دور رہے۔ اور اگر کبھی غلطی سے کوئی حرام کام سرزد ہو جائے تو اس پر نادم ہو اور توبہ وعہد کرے کہ وہ پھر کبھی کسی حرام کام کا ارتکاب نہیں کرےگااور اس عہد پر ثابت قدم رہے۔ ایسے لوگوں کے کارخیر یا دعا پر اللہ سے اجر وثواب یا اپنی مراد پانے کی امید رکھنا، ایک عبادت ہے، اور توحید کی علامت ہے۔ ایسی امید یا رجا کا اللہ کے سوا کسی مخلوق سے وابستہ رکھنا، توحید کے منافی امرہے، اور شرک ہے،اس سے ماقبل وفات خلوص نیت کے ساتھ توبہ کیے بغیر اللہ معاف نہیں کرتا۔

اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ) [الكهف: 110]

“آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔ تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔”

دل کی گہرائی سے اللہ کی رحمت ومہر بانی کی امید رکھنا بھی تقرب اِلی اللہ یا وسیلہ اِلی اللہ ہے۔ اس تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث قدسی بھی مروی ہے کہ:

(أنا عند ظن عبدی بی، و أنا معہ حیث ذکرنی) (متفق علیہ)

“ اللہ عز وجل فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں یعنی اس کے ساتھ وہی معاملہ کروں گا جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھےگا اور میں اس کےساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرےگا۔”

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:

( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) [ق: 16]

”ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں۔”

اس سلسلے میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ خوف ورجا دونوں کو اپنائے رکھیں، اور ایک مومن بندہ کی بہترین حالت یہ ہے کہ وہ مطلوبہ معتدل خوف وامید کے ساتھ اللہ سے محبت رکھے، انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا بھی یہی حال تھا، اور تمام مومنین بھی اسی روش پر چلتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالی ٰنے فرمایا:

( تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ) [السجدة: 16]

”ان کے پہلو اپنے بستروں سے الگ رہتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”

جب کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کی عام رحمت کو جان لےگا، اور یہ بھی جان لےگا کہ اللہ اپنے بندوں کے بہت سے گنا ہوں کو درگزر بھی کرتا ہے۔اور جب وہ اللہ کی تیار کردہ جنت اوراس کے عطا کردہ اجر وثواب کی کثرت سے واقف ہوگا،تو اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہوجائےگا، اور اللہ سے مزید کچھ پانے کے لیے اس کی لالچ وامید اور بڑھ جائےگی،وہ کار خیر میں اور بڑھ چڑھ کر حصہ لےگا، نماز اور روزے کا مکمل پابند ہو جا ئےگا، فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نوافل سے بھی وہ غافل نہیں رہےگا، صبح صادق سے ایک گھنٹہ پہلے ہی وہ اپنا بستر چھوڑ کر قیام اللیل وتہجد میں مشغول ہوجائےگا، اور اللہ سے لولگائےگا اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے خشوع وخضوع کے ساتھ گڑ گڑا کر دعائيں کرےگا کہ اللہ اسے اور اس کے اہل وعیال کو صالحین میں شامل کرلے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت اور عذاب کو ایک ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے،جیسے:

( وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ ) [الرعد: 6]

”اور جو تجھ سے (سزا کی طلبی میں) جلدی کر رہے ہیں راحت سے پہلے ہی، یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں، اور بےشک تیرا رب البتہ بخشنے والا ہے لوگوں کے بےجا ظلم پر بھی۔ اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا بھی ہے۔”

یعنی لوگوں کے اپنے نفس پر ظلم کرنے اور اللہ کی معصیت کرنے کے باوجود وہ ان کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا؛ بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے، اور بعض دفعہ ان کا معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہ درگزر اللہ کے حلم وکر م اور عفو ودرگزر کاہی نتیجہ ہے۔ ورنہ اگر وہ فورا ًمؤاخذہ کرتا اور بلا تاخیر عذاب دیتا تو روئے زمین پر اب تک جن اور انسان میں سے کوئی باقی نہ رہتا۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا ) [فاطر: 45]

”اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب داروگیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا؛ لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایک میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے۔ سو جب ان کی وه میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا۔”

اللہ کی مہربانی، رحم وکرم، اورمغفرت، اس کی صفت عدل وانصاف کا ایک پہلو ہے۔ سورۂ الرعد کی مذکورہ آیت میں صفت عدل کے اس پہلو کے ساتھ دوسرا پہلو اللہ کی قہرمانی کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ:

( وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ ) [الرعد: 6]

”اور بےشک تیرا رب بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔”

ایسا بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے؛ بلکہ اس دوسرے پہلو کو بھی مد نظر رکھے۔ کیونکہ ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھتے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن کریم میں جہاں پر اللہ کی صفت رحمت وغفران کا بیان ہوتا ہے، تو اِس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہر وجبروت کا بیان بھی ملتا ہے؛ تاکہ اللہ کی عبادت میں سے رجا(امید) اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں؛ کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے، تو انسان معصیت الہٰی کا بلاخوف وخطر ارتکاب کرتا ہے۔ اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ووماغ پر مسلط رہے، تو اسے اللہ کی رحمت سے مایوسی ہوجاتی ہے۔ اور یہ دونوں باتیں بندوں کے لیے غلط وتباہ کن ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:(الإیمان بین الخوف والرجاء) “ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔” بندہ کے ایمان کو صحیح سلامت رکھنے کے لیے ان دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ یعنی بندہ اللہ کے عذاب کے خوف سے بےپرواہ نہ ہو،اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو۔

میرے مسلمان بھائیو! آپ پہلے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کیجئے پھر نیک عمل کی انجام دہی میں لگ جائیے۔ پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ کسب حلال کے لیے محنت کرنا بھی عمل صالح ہے۔ نیک عمل کرنے کے بعد ہی اللہ سے اچھے برتاؤ اور اچھے بدلے کی امید وابستہ کی جا تی ہے۔ میٹھے آم کا پیڑلگاکر ہی اس سے میٹھے آم کی امید کی جا سکتی ہے۔ جبکہ کانٹے بوکر اس سے میٹھے آم کی امید رکھنا بےوقوفی اور احمقانہ عمل ہے۔ اسی طرح نیک عمل کیے بغیر اللہ تعالیٰ سے مہر بانی ورحم وکرم کی امید رکھنا، یا اس کا مستحق سمجھنا صرف بےوقوفی ہی نہیں؛ بلکہ اپنے آپ کو دھوکا دینا بھی ہے کہ اللہ تمہاری شکل وصورت اور مال ودولت دیکھ کر اپنے رحم وکرم ومغفرت کی تم پر بارش نہیں کردےگا۔ یہ تمہاری خودفریبی وغرور ہے، یا پھراعجاب بالنفس وخود پسندی ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے غروروگھمنڈ سے منع فرمایا ہے:

ارشاد ربانی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ ) [فاطر: 5]

”لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعده سچا ہے، تمہیں زندگانیِ دنیا دھوکے میں نہ ڈالے، اور نہ دھوکے باز شیطان تمہیں غفلت میں ڈالے۔”

یعنی تم دنیا میں بکثرت مال ودولت پاکر گھمنڈ وخود پسندی میں مبتلا نہ ہو جاؤ کہ اللہ ورسول کے بتائے ہوئے طریق انفاق سے روگردانی کرکے، اور حلال وحرام کی تمیز کو بالائے طاق رکھ کر، اسے جس طرح چاہو بےجاخرچ کرتے رہو، یہ شیطا نی چال ہے۔ تمہیں چاہئے کہ شیطان کے دجل وفریب اور ہتھکھنڈوں سے بھی بچو؛ تاکہ وہ تمہیں ناجائز فضول خرچی اور گناہ کے راستے پر نہ ڈال سکے، بےشک شیطان تمہاری ہر نیکی و بھلائی کا دشمن ہے اور تمہیں جہنم کے راستے میں دھکیل دینا چاہتا ہے۔

میرے مسلمان بھائیو! تم اللہ سے ڈرو، اور تقویٰ اختیار کرو، نیک اعمال پر مداومت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا نہایت ضروری ہے۔ تم نیک عمل پر اللہ سے اجر وثواب کی امید رکھو، اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہو۔ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی یاد رکھو:

( اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ) [المائدة: 98]

”تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے۔”

یعنی ایک مومن ومسلمان، جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے، اللہ کے عذاب وپکڑ کے خوف اور اس کے رحم وکرم کی رجا وامید کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرے تاکہ اللہ تعالیٰ خوش ہو کر اسے اپنے مزید رحم وکرم سے نوازے۔

اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو نیک اعمال کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔ ہم اپنے گردوپیش کے غریب ومحتاج اور بےسہارا یتیم وبیوہ کا خیال رکھیں، اور ان کے دکھ درد کو ہلکا کرنے کے لیے ان کی ضروریات میں ہاتھ بٹائيں؛ تاکہ وہ اپنی زندگی میں مایوسی کا شکار نہ ہوجائيں۔ ایسا نہ ہوکہ وہ رات کو بھوک سے نڈھال ہو کر اپنے بستر پر جائیں اور بھوک کی بےچینی سے ان کی آنکھوں کی نیند بھی چھن جائے اور اسی بےچینی سے وہ کروٹیں بدلتے رہیں اور ہم پڑوس میں رات کو آسودہ پیٹ نیند کے خراٹے لیتے رہیں ۔ کب ان محتاج اور بے سہارا لوگوں کےلیے ہمارے دلوں میں کوئی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگا؟ اللہ ہمارے دلوں میں اپنے پڑوسی کے حقوق کا صحیح احساس پیدا کرے۔ اس سلسلے میں ہم سے جو تقصیریں اور کوتاہیاں ہوئيں ہیں، یا ہورہی ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرمائے اور ہم سب کی آخرت کو دنیا سے بہتر بنائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔