إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله: أما بعد !
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) [آل عمران: 102]
( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ) [النساء: 1]
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا 70 يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) [الأحزاب:70 - 71]
أما بعد! فإن أصدق الحدیث کتاب اللہ، وأحسن الھدی ھدی محمد، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ فی النار۔
وقال اللہ سبحانہ وتعالی:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) [البقرة: 183]
وقال أیضا:( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ١ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ٢ ل لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ٣ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ ٤ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) [القدر: 1 - 5]
محترم سامعین کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آپ نے سابق الذکر آیتوں میں روزے سے متعلق ایک آیت سنی ، جس میں کہا گیا ہے کہ “اے مسلمانو ! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر فرض کیےگئے تھے، تاکہ تم لوگ پر ہیزگار بن سکو”۔ اسی کے ساتھ سورۃ القدر بھی آپ نے سنی جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ” ہم نے اس قرآن کریم کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر شب قدر میں نازل فرمایا۔ یعنی اسے عزت وبرکت والی رات میں اتارا ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدرہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات فرشتے اورروح الامین “جبریل “ اپنے رب سے ہر قسم کے احکام لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات طلوع فجر تک سلامتی وبرکت بکھیرنے والی ہوتی ہے۔”
سامعین کرام! یہ ہماری اور آپ کی خوش نصیبی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے اس مبارک مہینہ میں اپنے فریضے کی ادائیگی کی توفیق دی اور اس آخری عشرہ کی خیر وبرکت سے فائدہ اٹھانے کاموقع دیا۔ چنا نچہ ہم اپنےنفس کو اورآپ لوگوں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔آپ اپنے نہاں خانۂ دل میں جن چیزوں کو چھپائے رکھتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ محترم چیز یہ تقویٰ ہے۔ آپ جن اچھی چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں یہ تقویٰ ان میں سب سے زیادہ حسین چیز ہے اور آپ جن چیزوں کا ذخیرہ بناتے ہیں، ان میں بھی سب سے زیادہ اچھی چیز یہی تقوی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اسے ہمیشہ اپنائے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے اجر وثواب سے نوازے۔
محترم بھائيو! اس مبارک مہینے کےیہ ایام کم ہوتے جارہے ہیں۔ اسکی مبارک راتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔ آپ نے جو کچھ عمل کیا۔ یہ دن اور یہ راتیں گویا آپ کے اعمال کے لیے محفوظ تجوریاں اورمحفوظ گودام گھر ہیں۔آپ قیامت کے دن بلائے جائیں گے (جس دن ہر نفس اپنے کیے ہوئے عمل کا بدلہ پائےگا) آپ کا رب آپ کو ان الفاظ کے ساتھ پکارےگا کہ (اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں نے تمہارے لیے شمار کررکھاہے۔ پھر میں ہی تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ چنانچہ جس نے انہیں اپنے لیے بہتر پایا اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور جس نے اس کے خلاف پایا، وہ اپنے نفس کے علاوہ کسی اور کوملامت نہ کرے)۔
میرے بھائیو! یہ مبارک مہینہ، ربانی خزانہ لوٹنےکا موسم ہے اوریہ ہیں اس کے خاتمہ کے چند ایام۔ اس مہینے کے استقبال کرنےوالے نہ جانے وہ کتنے لوگ ہوں گے جو اسےپورا کرنے سےپہلے ہی گزر گئے اور اسے دوبارہ پانے کی امید کرنے والے نہ جانے کتنے لوگ تھے، جن کی یہ امید پوری نہ ہوسکی۔ انہوں نے اپنی موت اور اس کے انجام کے بارے میں کیوں نہیں غور کیا ؟ اور اپنی امید کی فریب کا ریوں اور اپنے نفس کےغرور کو کیوں نہیں پہچان سکے؟
عزیز بھائیو! اگرآپ کے نفس میں اپنی غلطیوں کے تدارک کاکوئی جذبہ ہےاور آپ کے دلوں میں کوئی خیر خواہانہ داعیہ موجود ہے، تو اس مبارک مہینے کے اب بھی چند ایام باقی ہیں، کیا آپ کو احساس ہے کہ یہ بقیہ ایام کیسے ایام ہیں؟
بھائیو!یہ اس کے آخری دس دن ہیں، اور وہ ایسے ایام ہیں جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس سے قبل کے بیس دن کے اوقات ، نماز اور نیند میں ملے جلے گزار تے تھے؛لیکن جب یہ آخری دس دن آجاتے تھے، تو کمر کس لیتے تھے، عبادت میں زیادہ محنت کرتے تھے اور تہبند کی گرہ سخت کرلیتے تھے، اپنا بستر چھوڑدیتے تھے، اپنے بال بچوں کو عبادت کے لیے جگاتے تھے، اپنی لخت جگر بیٹی فاطمہ اور اپنے پیارے داماد علی رضی اللہ عنہما کا دروازہ یہ کہہ کر کھٹکھٹاتےتھے کہ (کیاتم لوگ اٹھ کر نماز نہیں پڑھوگے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر یہ آیت بھی تلاوت فرماتےتھے۔
( وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى ) [طه: 132]
”اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما ره، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔”
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں کی طرف یہ فرماتے ہوئے جاتے کہ (اے حجرے والیو! جاگ جاؤ ! دنیا میں بہت سےلباس پہننے والیاں قیامت کے دن بےلباس ہوں گی)
میرے عزیزبھائیو! کیاایسا نہیں ہوا کہ جب رمضان المبارک کےدس دن باقی رہ جاتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال میں سےجو لوگ بھی قیام اللیل کی صلاحیت رکھنے والے تھے، کسی کو بھی قیام اللیل کی نماز کے لیے جگانے سے نہیں چھوڑتے تھے؟ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کو ماہ رمضان کے آخری دس دن کے ان خصوصی فضائل وخیرات میں حصہ لینے کے لیے گھر گھر جاکر جگاتے اورتنبیہ فرماتے تھے، تو ہمیں سوچنا اورعزم کرنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اُسوہ ونمونہ پر عمل کرنے کے لیے خود اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سلسلے میں کیا طریقہ اپنایا جائے؟
قیام اللیل کے بارے میں ممکن ہے کہ کوئی یہ کہہ دے کہ جب یہ قیام اللیل نفل عبادت ہے، اور میرے لیے فرائض کی پابندی کافی ہے۔ تو پھر ان نوافل کے لیے آپ کیوں میرے پیچھے پڑے ہوýئے ہیں؟
میرے عزیز بھائيو! اس میں کوئی شک نہیں کہ فرائض کی پابندی میں بہت زیادہ فوائد ہیں۔ کسی بھی مسلمان سے، جس نے سنت کا انکار نہیں کیاہے، صرف فرائض ہی کے بارے میں جوابدہی ہوگی؛ لیکن آپ کو کیامعلوم کہ ان فرائض کا آپ پورا پورا حق اد اکر سکے تھے؟ اگر لاعلمی یا کسی سستی سے ان ادا کردہ فرائض میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آپ کو ان نوافل کی ضرورت ہے۔ قیامت کے روزایسے نوافل کے بارے میں ابو داؤد وغیرہ نے یہ حدیث روایت کی ہے:
(عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن أول ما یحاسب الناس بہ یوم القیامۃ من أعمالھم الصلاۃ، قال: یقول ربنا جل وعز لملائکتہ: وھو أعلم، أنظروا فی صلاۃ عبدی، أتمھا أم نقصھا، فإن کانت تامۃ کتبت لہ تامۃ، وإن کان انتقص منھا شیئا قال: أنظروا ھل لعبدی من تطوع، فإن کان لہ تطوع قال: أتموا لعبدی فریضتہ، ثم تؤخذ الأعمال علی ذاکم) (صحیح أبی داود، کتاب الصلاۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کل صلاۃ لایتمھا صاحبھا رقم: 770-864، وصحیح الترمذی رقم:337، وصحیح ابن ماجہ رقم:1172، کتاب الإیمان لابن أبی شیبۃ رقم: 112، وصحیح الترغیب رقم:1/185)
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ قیامت کے روزلوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب کیا جائےگا وہ نماز ہے۔ فرمایا: ہمارا رب اپنے فرشتوں سے کہےگا، جبکہ وہ خود زیادہ جاننے والا ہے کہ تم میرے بندے کی نمازپر نظر ڈالو، اس نے اسے پورا کیا ہے یا اس میں کچھ کمی کی ہے۔ اگر وہ پوری ہے تو لکھا جائےگا کہ وہ پوری ہے۔ اور اگر اس میں کچھ کمی کی ہے تو (اللہ اپنے فرشتوں سے) کہےگا: تم دیکھو کہ میرے بندے کا کچھ نفل عمل بھی ہے؟ اگر اس کا نفلی عمل ہے تو کہےگا: اس نفل کے ذریعہ میرے بندے کے فریضے کی کمی پوری کردو۔ پھر اس طرح (فریضے کی تکمیل کے لیے) نفلی اعمال لیےجاتے رہیں گے۔”
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بعض فرائض کو مقرر تو فرمادیا ہے ؛ لیکن وہ جانتا ہے کہ ان بندوں میں سے کچھ لوگ ان کی تکمیل میں کوتاہی کریں گے۔ چنانچہ ترغیبی انداز میں ان پر رحم کرتے ہوئے ان کے لیے کچھ نوافل بھی مشروع فرمادیا ہے۔ ان نوافل کے ذریعہ ان کی کوتاہیوں کی تلافی ہو جائےگی۔ اگر ہم یہ مان بھی لیتے ہیں کہ ہم نے ان فرائض کا حق پورا کردیا ہے، پھر بھی ہم ان نوافل سےمستغنی نہیں ہو سکتے؛ کیونکہ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآَخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ) [الأحزاب: 21]
”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔”
یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ان آخری دس دنوں کی خوبیوں میں سےایک اہم خوبی یہ ہے کہ انہی میں شب قدر پانے کی امید کی جاتی ہے، جس کے باے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ) [القدر: 3]
”شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔”
امام نخعی رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس ایک رات کا عمل دیگر ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے۔
میرے بھائيو! ذرا اندازہ لگاؤ کہ ایک ہزار مہینے کی کتنی مدت ہوتی ہے؟ یہ (تراسی سال چار ماہ ) ہیں۔ چنانچہ اس رات کا عمل، جسے اللہ اس کی توفیق دے، ان تراسی سال چار ماہ کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو۔
اور ایک حدیث میں آیا ہے:
(عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من قام لیلۃ القدر إیمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ)
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب پانے کے ارادے سے شب قدر میں قیام کیا، یعنی اسے ادائےفریضہ کے بعد نفل نمازوں اور ذکر ودعامیں گزارا تو اس کے تمام پچھلے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جائيں گے۔”(بخاری، باب من صام رمضان إیمانا واحتسابا، ومسلم، باب الترغیب فی قیام رمضان إیمانا واحتسابا)
جس رات کی اتنی خوبیاں ہیں اسے پانے کے لیے ہمیں کچھ خاص کوشش اور جد وجہد بھی کرنی ہوگی، تبھی آپ اس سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اس رات کی کچھ علامتیں بھی بیان کی گئی ہیں، جنہیں دیکھ کر آپ کو اطمینان ہوسکتا ہے کہ آپ نے شب قدر پالی ہے۔ شبِ قدر کے گزرنے کے بعد والی صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو قدرے سفید سا طلوع ہوتاہے، جس کی روشنی میں تیز شعاعیں نہیں ہوتیں۔ یہ آخری دس دنوں کی کسی طاق رات میں واقع ہوتی ہے۔ اس کے لیےکسی خاص رات کی تحدید نہیں کی گئی ہے تاکہ آخری عشرہ میں قیا م اللیل کرنے والا ہر شخص ان راتوں کو قیام اورذکر و دعا کرتے ہوئے گزارے۔اور رمضان کے نیک اعمال کے اجر وثواب کے ساتھ شب قدر کےاس مخصوص ثواب کا بھی وہ مستحق ہوجائے۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں پر خصوصی مہربانی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (خواب میں) شبِ قدر دکھائی گئی تھی، جیسا کہ حدیث میں ہے:
“عن أبی سلمۃ قال: سالت أبا سعید وکان لی صدیقا، فقال: اعتکفنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم العشر الأوسط من رمضان، فخرج صبیحۃ عشرین فخطبنا، وقال: إنی أریت لیلۃ القدرثم أنسیتھا أو نسیتھا، فالتمسوھا فی العشر الأواخر فی الوتر، وإنی رایت أنی أسجد فی ماء وطین، فمن کان اعتکف مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلیرجع “ فرجعنا، وما نری فی السماء قزعۃ فجاءت سحابۃ فمطرت، حتی سال سقف المسجد، وکان من جرید النخل، وأقیمت الصلاۃ فرأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسجد فی الماء والطین، حتی رأیت أثر الطین فی جبھتہ) (البخاری، کتاب الصیام، باب التماس لیلۃ القدر فی السبع الأواخر)
“ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید (خدری) جو میرے دوست تھے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے رمضان کےدرمیانے عشرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مسجدمیں ) اعتکاف کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیسویں رات کی صج نکلے اور ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “مجھے (خواب میں ) شب قدر دکھائی گئی، پھر مجھے وہ بھلا دی گئی؛ لیکن اے لوگو! تم اسے آخری دس دن کی طاق راتوں میں تلاش کرو، میں نے (خواب میں) دیکھا کہ میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں۔ پس جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کرکے (نکل گئے) انہیں چاہئے کہ وہ اعتکاف میں لوٹ آئیں۔ چنانچہ ہم لوگ لوٹ کر اعتکاف میں بیٹھ گئے۔ (اس آخری عشرہ میں ایک رات ایساہواکہ) آسمان میں ہم کوئی بادل کاٹکڑا نہیں دیکھ رہے تھے۔ اچانک بادل آیا اور اتنی بارش برسا گیا کہ مسجد کی چھت سے پانی بہنے لگا۔ جبکہ وہ کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ پھرنماز کے لیے جماعت کھڑی کی گئی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی وکیچڑ میں سجد ہ کرتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک میں کیچڑ کا اثر بھی دیکھا۔”
محترم بھائیو! آپ اس وقت ماہ رمضان کے ان دس ایام سے گزررہے ہیں، جن میں ہزارراتوں سے بہتر رات”شب قدر” گزرنے کے ساتھ اس میں ایک ایسی محبوب یا مستحب سنت بنام “اعتکاف” مشروع کی گئی ہے جو مسجد جیسی مبارک جگہ کے علاوہ اور کہیں انجام نہیں دی جاسکتی، جسے پاک صاف رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اوراسماعیل علیہما الصلاۃ والسلا م سے ان الفاظ میں عہد لیا تھا:
( أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ) [البقرة: 125]
”تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجده کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔”
اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فر مایا:
( وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ) [البقرة: 187]
“ اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔”
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف ماہ رمضان میں مسجد کے اندر ہی کیا جاتا ہے۔
جب کوئی شخص اعتکاف کرتا ہے، تو وہ اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت اور اس کی یاد میں مصروف رکھتا ہے، اور اسے دیگر ہر قسم کی مشغولیت سے منقطع کرلیتا ہے، اور دل وجان سے اپنے رب کی اطاعت پر اور رب سے قریب کرنے والی چیز پرجم جاتا ہے۔
اعتکاف کے معنی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ خالق سے تعلق جوڑنے کے لیے مخلوقات سے تعلقات منقطع کر لیے جائیں۔ ایک معتکف کے لیے اللہ کی معرفت اور اس کی محبت قوی ہوجاتی ہے، جو اس کے اندر اللہ کی اطاعت اوراللہ پر توکل کا جذبہ پیدا کر دیتی ہے۔
“ماہ رمضان میں پورے قرآن کریم کی تلاوت ختم کرنے کی جدوجہد کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھجبریل علیہ الصلاۃ والسلام کی اجتماعی سنت ہے۔ آپ ہر سال رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بارقرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال جبریل علیہ السلام نے دوبار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کا دور فرمایا۔”(بخاری ومسلم بروایت ابن عباس)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت پسند تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا معاملہ رمضان کے مہینے میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتا تھا، جب جبریل علیہ السلام ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرکے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جبریل علیہ السلام کی ملاقات کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی معلوم ہوتے تھے۔
اگر لوگوں کو رمضان مبارک میں نیکیاں انجام دینے کے اجر عظیم اور اس کےثواب کثیر پر یقین ہوجائے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان ہواہے، تووہ لوگ فقراء ومحتاجین کوصدقات وزکاۃالفطرادا کرنے کی دل کھول کر کوشش کریں گے۔ اپنے نفس کے لیے بھلائی کے کام انجام دیتے رہیں گے، اور اپنے نبی کی تعلیمات کو ایک ایسی زندہ امت کی طرح اہمیت دیںگے جوعلم حاصل کرکے اس پر عمل کرتی ہے،اور نیکی، سلامتی وپاکیزگی کے اعتبار سے، اعمال کے ثمرات کی مستحق ہوتی ہے۔
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله۔
قال اللہ سبحانہ وتعالی:
( وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ) [البقرة: 125]
”اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) سے وعده لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔”
محترم بھائیو! رمضان کے آخری عشرہ کے بارے میں ہماری باتیں چل رہی تھیں۔ یہ وہ ایام ہیں، جن میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے، جو دیگر مہینوں کی بنسبت ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ یعنی وہ ان تراسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ بہتر ہے، جن میں شب قدر نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ایام میں اس امید سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ان میں سے جس رات میں بھی شب قدر گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ اوّل میں اعتکاف فرمایا، پھر عشر اوسط میں بھی، پھر آپ اپنا سر مبارک اوپراٹھا کر لوگوں سے باتیں کرنے لگے، تو لوگ آپ کے قریب پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عشر اوّل میں اس رات کو تلاش کرتے ہوئے اعتکاف کیا، پھر عشر اوسط میں اعتکاف کیا، پھر مجھے اس کے بارے میں اطلاع دی گئی اور کہا گيا کہ وہ شب قدر عشر اواخر میں ہے۔ چنانچہ تم میں سے جو اعتکاف کرنے کا ارادہ کرے اسے چاہئے کہ اس عشر اواخر میں اعتکاف کرے۔
(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر والحث علی طلبھا)
اگر کوئی شخص شب قدر پالے تو یہ دعاپڑھے:
(اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی) (ابن ماجہ، باب الدعاء بالعفو والعافیۃ)
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حالت میں اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن اعتکاف فرماتے تھے؛جب کہ اپنی وفات کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اعتکاف پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف چھوڑ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے عشر اوّل میں اس چھوڑے ہوئےاعتکاف کی قضا کی۔”
(صحیح البخاری، کتاب الصیام، باب الأخبیۃ فی المسجد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان چيزوں کو وقتی طور پر چھوڑ دیتے تھے جو اصلاً جائز ہوتی تھیں۔ جیسے اعتکاف کی وجہ سےنیند اور عورتوں سے ملنا۔ جسے عائشہ رضی اللہ عنہا نے یوں بیان فرمایا: (جد وشد مئزرہ) جس کے معنی یہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت اعتکاف میں نوم ونساء ترک فرمادیا۔
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے ý آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اعتکاف کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی، یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بات بھی بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ آپ کی ایک مستحاضہ بیوی نے بھی اعتکاف کیا، جواپنے سرخ اورپیلے خون کی حالت میں تھیں۔ جبکہ کبھی کبھی ہم(خون ٹپکنے کے خدشے میں) ان کے نیچے طست رکھ دیتی تھیں اور وہ نماز پڑھتی تھیں۔”
(صحیح البخاری، باب اعتکاف المستحاضۃ)
اعتکاف کی یہ مسنون عبادت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلاۃ والسلام کے زمانے ہی سےمشروع ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ) [البقرة: 125]
”اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) سے وعده لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجده کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔”
اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو مسجد میں انجام دینا مشروع فرمایا۔ اور اس کے لیے کچھ حدود بھی بیان فرمائے، جن کا ہر معتکف کو لحاظ رکھناچاہئے۔ جیسے؛
اعتکاف سے متعلق سنت رسول کا اتباع کرنا۔
اعتکاف کی نیت کرنے پر اس کا اتمام واجب نہیں، یعنی اسے منقطع کرنا جائز ہے۔ خاص کر اس حالت میں جب اس عمل پر ریاکاری کا خوف لاحق ہو جائے۔
اس کی اقل مدت کی تحدید کے لیے کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے۔
اعتکاف شروع کرنے کے لیے غروب سے پہلے مسجد کی مخصوص جگہ پر پہنچ جاناچاہئے تاکہ آرام کرتے وقت اسی جگہ آرام کرے۔
اگرچہ معتکف مسجد کے اندر کسی بھی جگہ منتقل ہوسکتا ہے؛لیکن اعتکاف کی جگہ باربار بدلنا مناسب نہیں ہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے وقت ایک ہی جگہ ٹھہرتے تھے، اور وہاں سے صرف نماز یاقضائے حاجت کے لیے نکلتے تھے۔ نیز کھانے پینے کے لیے بھی نکل سکتا ہے، اگر کوئی کھانا لانے والا نہ ہو۔ اگر مسجد ہی میں کوئی مریض ہو تو وہ اس کی عیادت میں جاسکتا ہے، یامسجد میں نماز جنازہ ہو تو اس میں بھی شریک ہوسکتا ہے۔ اس کے علا وہ کسی دنیوی کا م کے لیے مسجد سے نہیں نکل سکتا۔
عزیز بھائيو ! ہمیں تواضع اور نرم مزاجی کے ساتھ لوگوں سے برتاؤ کرنا چاہئے۔ ہم اللہ کی اطاعت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ اپنے اعمال کے عدم قبول کا بھی ہمیں خوف رہناچاہئے۔ کیونکہ اللہ سے بےخوفی خسارہ اٹھانے والی قوم کی علامت ہے۔ اللہ ہمیں ایسی قوم کی طرح نہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو اخلاص نیت کے ساتھ اعتکاف کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
عباد اللہ! إن اللہ یأمرکم بالعدل والإحسان، واللہ یعلم ماتصنعون۔