الحمد لله رب العالمين، والعاقبة للمتقين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه أجمعين، وبعد:
فأعوذ بالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم۔
حضرات! دلوں پر حکمرانی کرنا ہی اصل کامیابی وکامرانی ہے۔ دل جیتنے کا فن جس کو آگیا سمجھو دنیا اس کی دیوانی ہوگئی۔ اور جو دل جیتنے کے فن سے ناآشنا ہوتا ہے وہ کبھی بھی گوہر مقصود سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ہے۔ دل جیتنے کا دائرہ نہ صرف دین ہی تک محدود ہے بلکہ دنیا کی زندگی میں بھی اس کی اہمیت کا کوئی منکر نہیں ہوسکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بڑے جابر وظالم حاکموں نے زور بازو وقوت لشکر اور ظلم واستبداد کے ذریعہ لوگوں کے جسموں پر اور ظاہری نظلم ونسق پر حکومت تو قائم کرلی مگر جونہی ان کی قوت میں کمی آئی ان کے ستارہ اقبال کو گہن لگ گیا۔ جب بھی قوم کو ان کے ضعف کا احساس ہوا ان کا تختہ پلٹ دیا۔ اسباب صاف ظاہر ہیں کہ قوم بحالت مجبوری ان کی حکومت وحکمرانی برداشت کررہی تھی اور ان کے ظلم واستبداد نے لوگوں کی زبانوں پر مہر لگارکھی تھی۔ لوگوں کے دلوں میں ان حاکموں کے تئیں ذرہ برابر بھی محبت ونرمی کا گوشہ نہیں تھا۔
چونکہ انہوں نے کبھی بھی قوم کے دلوں کو جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ لہذا قوم بھی کبھی ان کو دل سے قبول نہیں کرپائی۔ اور جہاں پر بھی کوئی کام دل، محبت اور عقل سے خالی ہوتا ہے وہاں شر وفساد کا امکان یقینی رہتا ہے اور جہاں پر پہلا کام دلوں کو فتح کرنا ہوتا ہے وہاں خود بخود اس کی حکو مت قائم ہوجاتی ہے۔ آج جبکہ دنیا میں دین اور سیاست کے درمیان خط تفریق اور حدفاصل کھینچ دیا گیا ہے تب بھی یہ اصول اتنے ہی مجرب اور کامیاب ہیں۔ عموما دیکھا جاتا ہے کہ جس نے لوگوں کا دل جیت لیا وہ سیاسی حکمرانوں کی حکومت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ممکن ہے اہل سیاست کے پاس لوگوں کے آنے میں کوئی مصلحت بھی پوشیدہ ہو مگر دل جیتنے والے پر انسان بلامصلحت سب کچھ قربان کردیتا ہے۔
سماجی زندگی کا اتنا بڑا راہنمااصول صرف سیاست وحکومت اور بڑے علماء ومشائخ کے عظیم الشان طبقے کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ انسان کی اپنی فیملی لائف اسٹائل اور خاندانی نظام زندگی سے لے کر دین اور دنیا کے بڑے سے بڑے امور میں بھی اس کی اتنی ہی اہمیت وضرورت ہے۔
ایک انسان اگر اپنے گھر کا مالک ہے، اس کے گھر کئی افراد ہیں تو ظاہر ہے کہ سبھوں کی ذمہ داری اسی کے کندھے پر آجاتی ہے۔ اسے مختلف مزاج وعادات اور مختلف رشتے اور رابطے والوں سے عدل وانصاف کے ساتھ نبھاؤ کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان عدل وانصاف کو بحال رکھنا چاہتا ہے۔ خیر خواہی کے جذبے سے اس کا دل معمور ہوتا ہے لیکن اگر دل جیتنے کے فن سے وہ نابلد ہے تو یہ چھوٹی سی فیملی کو بحسن وخوبی نبھانا اس کے لیے بےحد مشکل ہے۔ اس کے برعکس جس نے اس فن کو سیکھ لیا وہ بڑی آسانی سے نہایت ہی حسن وخوبی کے ساتھ اپنے گھر کو چلاسکتا ہے۔
یہی اصول مدرسہ اور اسکول میں برتا جاسکتا ہے۔ یہی اصول بڑی بڑی کمپنیوں اور بڑی بڑی تنظیموں میں آزمایا جاسکتا ہے۔ یہی اصول امام ومقتدی کے درمیان کامیابی کا ضامن ہے۔ یہی اصول پیشوا اور پیروکاروں کے مابین بھی نیک نامی کا حامل ہے۔ اگر علماء ومشائخ اس اصول کے بغیر اپنی عظمت کا سکہ نہیں بیٹھا سکتے ہیں تو حاکم وقت بھی اس زرین اصول کے بغیر ایک کامیاب حکومت قائم نہیں کرسکتے۔ بلکہ آج کے اس دور جدید میں جبکہ ہر چیز کا معیار ہی بدل چکا ہے ہے۔ ہر انسان اپنے انداز میں زندگی گذارنا پسند کرتا ہے، بڑے بڑے سورماؤں اور مفکروں کے آب زر سے لکھے گئے بہت سے اصول فرسودہ ہو چکے ہیں، مگر دل جیتنے کی اہمیت آج تک بد ستور قائم ودائم ہے۔ اور آج اس کی اہمیت مزید دو چند ہوگئی ہے۔
یہ زریں اصول در اصل اسلام کے نظام معاشرت کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اور اس اصول کو نبی کریم جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت کے ساتھ حکیمانہ اسلوب میں پیش فرمایا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں:
“سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: الحلال بین، والحرام بین، وبینھما مشتبھات، لا یعلمھا کثیر من الناس، فمن اتقی المشتبھات، استبراء لدینہ وعرضہ، ومن وقع فی الشبھات، وقع فی الحرام، کالراعی یرعی حول الحمی، یوشک أن یرتع فیہ۔ ألا وإن لکل ملک حمی، ألا وإن حمی اللہ محارمہ، وإن فی الجسد مضغۃ إذا صلحت صلح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب” (صحیح مسلم)
“نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے ہوئےسنا کہ حلال بھی واضح اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہات (یعنی شک میں ڈالنے والی چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جاتنے ہیں) چنانچہ جو مشکوک چیزوں سے محفوظ رہا اس کا دین اور عزت بھی محفوظ ہے اور جو مشکوک اشیاء میں داخل ہوگیا تو سمجھو کہ وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ جیسا کہ چرواہا کسی چراگاہ کے اردگرد مویشی چراتا ہے تو قریب ہے کہ اس کے جانور اس چراگاہ میں داخل ہوکر چرنا شروع کر دیں اور غور سے سنو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کے محارم ہیں اور غور سے سنو کہ جسم میں ایک ٹکڑا ہوتا ہے جب وہ ٹکڑا ٹھیک ٹھاک ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور جب وہ ٹکڑا بگڑ گیا ہو تو پورا جسم بگڑجاتا ہے۔ اور غور سے سنو کہ یہ ٹکڑا دل ہے۔”
اس حدیث پاک میں اگر آپ غور کریں گے تو صاف نظر آئےگا کہ اس حدیث کے آخری ٹکڑے پر پوری حدیث کا مدار ہے۔ اور یہ صحیح بھی ہے کہ دل ہر اچھائی اور برائی دونوں کا نکتۂ آغاز ہے۔ عموماً مذہب اسلا م کے سارے کاموں میں نیکی وخلوص کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس کے بغیر دین وایمان، نماز روزہ، حج اور زکاۃ سب رائیگاں ہیں۔ اللہ کے نزدیک کسی کی کوئی قیمت نہیں۔ اس لیے دین کے ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں نیت وخلوص پر بہت زیادہ زوردیا گیا ہے۔ مشہور حدیث ہے:
“إنما الأعمال بالنیات”
“سارے اعمال کے ثواب کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔”
اور نیت کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ لہذا مذہب اسلام کا اصل نشانہ بھی دل ہی ہے جو مسلمان بھی دل سے پابند شریعت ہوتا ہے وہ کامیاب ہے۔ اور جو دل سے نہیں بلکہ بحالت مجبوری شریعت کاپابند نظرآتا ہے۔ اس کے پھسلنے کاڈر بھی بہت زیادہ ہے۔
حضرات! اکتساب قلب کا یہ فن بالخصوص ایک داعی اور مبلغ کے لیے سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اگر داعی اکتساب قلب یعنی دل جیتنے کے فن سے آشنا ہے تو اس کی دعوت میں بلاکی تاثیر ہوتی ہے، لوگ بہت جلد اس سے قریب ہونے لگتے ہیں،اس کی باتوں کو دھیان سے سنتےہیں اور اس کو دل میں جگہ دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ دل جیتنے والا آدمی پہلے تن تنہا ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ اس کی پرکشش شخصیت اپنے ارد گرد اپنے ہم خیالوں کی بھیڑ جمع کرلیتی ہے۔ اور ایسے ہی لوگ اس شعر کے مصداق نظر آتے ہیں:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یقیناً ایک داعی اگر اس فن سے نا بلد ہے تو وہ اپنے مقصدمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ نہ سامعین اس کے پاس اکٹھے ہوسکتےہیں نہ اس سے کسی کو قربت ہوسکتی ہے اور جب کوئی اس کے قریب نہ پھٹکے تو پھر اس کی دعوت کا مخاطب کون ہوگا کس کے پاس وہ دین کی تبلیغ کرےگا۔ اس عظیم نفسیاتی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ) [آل عمران: 159]
“اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔”
حضرات ! مذکورہ باتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ دل جیتنے کی اہمیت کیا ہے اور اس کے کیاکیا فوائد ونتائج ہیں۔ اب آیئے، ذرا ان اسالیب وطریق کو بھی تلاش کریں جن سے دل جیتنے میں مدد مل سکتی ہے۔
قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور درس گاہ نبوت میں تربیت یافتہ صحابہ کے اسلوب ونمونے کی روشنی میں کچھ طریقے متعین کیے جاسکتےہیں ۔
اخلاص وللہیت:
آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس کا دل جیت کر آپ اس کو قریب کرنا چاہتے ہیں اس کو قریب کرنے کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے؟ آپ اس کوکیوں قریب کرنا چاہتےہیں؟ اگر آپ کادل صاف ہے اور آپ اس کے خیرخواہ ہیں اور کسی نیک مقصد کی خاطر اسے اپنے سے قریب کرنا چاہتے ہیں تو پھر حکمت ودانائی کے ساتھ اسے اس مقصد سے آگاہ کیجئے۔ اس کے برخلاف یا اگر آپ کے اندر اخلاص وللّٰہیت کافقدان ہے تو آپ کبھی بھی دل نہیں جیت سکتے ہیں۔ ممکن ہے وقتی طور پر آپ کے دیگر اچھے اخلاق وعادات کی وجہ سے متاثر ہوجائے مگر اس میں دوام کبھی نہیں ہوسکتا ہے لہذا اخلاص نہایت ہی ضروری ہے۔
ارشاد باری ہے:
( وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ) [البينة: 5]
“ انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں۔”
دوسری جگہ ارشادہے:
( قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ) [آل عمران: 29]
“کہہ دیجئے! کہ خواه تم اپنے سینوں کی باتیں چھپاؤ خواہ ظاہر کرو اللہ تعالیٰ (بہرحال) جانتا ہے۔”
اس سلسلہ میں ایک بہت ہی زیادہ مشہور حدیث ہے جس سے تقریبا سبھی لوگ واقف ہیں۔
“إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل إمرئ ما نوی، فمن کانت ھجرتہ إلی اللہ و رسولہ فھجرتہ إلی اللہ و رسولہ و من کانت ھجرتہ لدنیا یصیبھا أو إمرۃ ینکحھا، فھجرتہ إلی ما ھاجر إلیہ” (متفق علیہ)
“عملوں کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملےگا۔ لہذا جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اس کی ہجرت انہی کی طرف سمجھی جائےگی۔ اور جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجر ت کی تو اس کی ہجرت انہی مقاصد کے لیےہوگی۔”
لوگوں سے میل جول :
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(إعلم أن الاخلاط بالناس علی الوجہ الذی ذکرتہ ھو المختار الذی کان علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وسائر الأنبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیھم، وکذلک الخلفاء الراشدون ومن مذھب أکثر التابعین، ومن بعدھم، وبہ قال الشافعی و أحمد و أکثر الفقھاء رضی اللہ عنھم أجمعین)
“ لوگوں سے میل جول رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ طریقہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر تمام انبیاء ورسل، خلفائے راشدین، تابعین، تبع تابعین اور تمام علمائےمسلمین کا بھی یہی پسندیدہ طریقہ رہا ہے۔ امام شافعی وامام احمد اور دوسرے فقہائے کرام بھی اسی کے قائل ہیں۔”
آج مارکیٹ میں (الرجال حول الرسول) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد مردوں کی جماعت”، اسی طرح (النساء حول الرسول) “نبی کے پاس عورتوں کی جماعت” وغیرہ ناموں سے کتابوں کی بھرمار ہے۔ لوگوں کی کثرت آمد ورفت کو مد نظر رکھ کر یہ کتا بیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں صحابہ وصحابیات کے ناموں کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی بات چیت اور گفتگو کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ اور وہاں رونما ہونے والے واقعات بھی درج کیےگئے ہیں۔ الغرض ان کتابوں نے یہ واضح کیا ہے کہ آپ کا لوگوں سے کس قدر میل جول اور ربط وضبط تھا۔ لہذا لوگوں سے ربط وضبط رکھنا بھی ایک نبوی طریقہ، بلکہ ایک پسندیدہ نبوی طریقہ ہے۔
تواضع اور نرم خوئی:
ارشاد باری ہے:
( وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ) [الشعراء: 215]
“اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کر تیری تابعداری کرے۔”
ارشاد نبوی ہے:
“إن اللہ أوحی إلی أن تواضعوا حتی لا یفخر أحد علی أحد و لا یبغ أحد علی أحد” (رواہ مسلم:2856 عن أیاض بن حمار)
“ حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ آپس میں تواضع اختیار کروحتی کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کا بھی دل جیتے تھے :
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا گزر چند بچوں کے پاس سے ہوا تو انہوں نےان کو سلام کیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کیا کرتے تھے۔ (بخاری)
گھر کا کام کرنا اور اہل خانہ کا دل جیتنا :
حضرت اسود بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کام کرتے تھے؟حضرت عائشہ نے فرمایا :آپ اپنے گھروالوں کی خدمت میں لگےرہتے تھے۔ پھر نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ (بخاری)
حسن اخلاق :
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ) [القلم: 4]
“اور بےشک آپ بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہیں۔”
در حقیقت کسی کو متاثر کرنے کے لیے حسن اخلاق سب سے بڑا جادو ہے۔
عفوودرگزر:
ارشاد ربانی ہے:
( وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ) [آل عمران: 134]
“غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔”
سچ مانئے، یقیناً جس کے ساتھ عفوودرگزر کا معاملہ کیاجاتا ہے وہ مرعوب ہوجاتا ہے۔
عدل وانصاف :
ارشاد ربانی ہے:
(إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ) [النحل: 90]
“اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے، وه خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔”
حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، تین قسم کے لوگ جنتی ہیں:
ایک وہ حکمراں، جو انصاف کرنے والا اور اعمال خیر کی توفیق سے بہرہ ور ہو۔
دوسرا وہ آدمی، جو ہر مسلمان اور رشتہ دار کے لیے مہر بان اور نرم دل ہو۔
اور تیسرا مانگنے سے گریز کرنے والا وہ شخص جو ما لدار نہ ہونے کےباوجود سوال سےبچنے والا ہو۔
وعدہ خلافی نہ کرنا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) [المائدة: 1]
“ اے ایمان والو۔ عہدوں کو پورا کرو۔
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔
حضرات!خطبۂ اولیٰ میں لوگوں کا دل جیتنے کے موضوع پر بالتفصیل بات ہوئی۔ اور مناسب سمجھتا ہوں کہ مجملا بھی بعض ضروری چیزوں کا ذکر آجائے جو نہایت ہی اہم ہیں ان مجمل اشیاء کو تین خانوں رکھا جاسکتا ہے:
حقوق اللہ کی ادائیگی:
توحید، نماز، روزہ، صاحب نصاب ہونےپر زکاۃ اور حج کی وقت پر ادائیگی اور بدعات وخرافات سے اجتناب۔
حقوق العباد کی ادائیگی:
مثلا، کسی کو نہ ستانا، غریب کو نہ دبانا، یتیموں کا مال نہ کھانا، بیوہ کی مدد کرنا، مساکین وفقراء کا تعاون کرنا، مریضوں کی عیادت کرنا، مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا، صلہ رحمی کو فروغ دینا، سب سے اچھا سلوک کرنا، بڑوں کا ادب کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، گمراہ کو راہ دکھانا، غم زدہ کاغم بانٹنا، سلام کو رائج کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا وغیرہ وغیرہ۔
اپنی شخصیت کو برقرار رکھنا:
یہ سب سے زیادہ ہم ہے۔ یعنی آپ کے قول وفعل میں فرق نہ ہو۔ مروت کاپاس ولحاظ ہو۔ حق گوئی اور سچائی آپ کا اصول ہو۔ شبہ والی چیزوں سے اجتناب ہو۔ وضع قطع مناسب ہو۔ گنجائش سے زیادہ پاؤں نہ پھیلایا جائے۔ طاقت سے زیادہ بوجھ نہ اٹھایاجائے۔ ڈکٹیٹرشپ کا مزاج نہ ہو۔ مخدوم بننے کے بجائے خادم ہی بن کر رہنے کاجذبہ ہو۔ لین دین بالکل پاک صاف ہو۔ زبان وادب میں شائستگی ہو۔ گویا خود کو آپ ہر طرح سے ایک خیرخواہ اور مہذہب انسان کی شکل میں پیش کریں تو یقیناً لوگوں کے دلوں کو فتح کر لیں گے۔
حکیما نہ اسلوب :
دلوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے چوتھی اور آخری چیز جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ آپ کا حکیمانہ اسلوب ہے۔ یعنی موقع ومحل کی مناسبت سے سوال کا جواب دینا۔ بسااوقات صحیح جواب بھی موقع ومحل کے عدم منا سبت کی وجہ سے غیرمفید بن جاتا ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے نبی کریم کی زندگی میں اس طرح بہت سے واقعات ہیں جن میں آپ نے حکیمانہ اسلوب اختیار کیا ہے۔
ایک صحابی رسول نے دربار رسالت میں آ کر شکایت کی کہ میں اور میری بیوی دونوں گورے ہیں۔ لہذا ان سے بچہ کالا کیسے پیدا ہوگیا؟ اس کو اپنی بیوی پر شک ہونے لگا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیمانہ اسلوب میں اونٹ کی مثال دی کہ تمہارے پاس اونٹ ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں ، تو آپ نےفرمایا: فلاں رنگ کا ہے؟ تو کہا: نہیں، پھر پوچھا: فلاں رنگ کا ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں، تو آپ نے فرمایا: یہ کہاں سے آگیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ رگ کھینچ کرلائی ہوگی۔ تو آپ نے جواب دیا کہ تمہارے اس بچہ کے رنگ کو بھی کوئی رگ کھینچ کر لائی ہوگی۔ چنانچہ وہ صحابی مطمئن ہوگئے۔ اسی کو اسلوب حکیم کہاجاتا ہے۔
ارشاد باری ہے:
( وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ) [النحل: 125]
“ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔”
حکیمانہ اسلوب اپنانا ہی جدل ومناظرہ میں آپ کی ظفرمندی کی علامت ہے۔
اللہ ہم سبھوں کو دلوں کو جوڑنے کی توفیق عطا فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے، آمین۔