إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،
أما بعد: فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محد ثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار.
وقد قال اللہ عز وجل: أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم:
( يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ ) [النور: 44]
”اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردوبدل کرتا رہتا ہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں”۔
حاضرین گرامی! رات ودن اور ماہ وسال کی آمد ہمیں ہماری مدت حیات کے ختم ہونے اور دار فانی سے دار بقا کی طرف رحلت کر جانے کا پتہ دیتی ہے ۔ دنیا کی اس زندگی میں کسی شے کو ثبات وقرار نہیں ۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اشیاء میں تغیر رونما ہوتا ہے۔ ہماری یہ زندگی چند روزہ ہے۔ رات ودن کی آمد کے ساتھ زندگی دیکھتے دیکھتے گذرجاتی ہے اور موت کے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں چند سانسیں ہی لے سکے اور چل چلاؤ کا وقت آگيا ۔ عمر طبعی بھی ساٹھ ستر سال کے درمیان ہے۔ اسّی اور نوے سال کی عمر تو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور پھر یہ مدت بھی بہت قلیل ہے ۔ نوح علیہ السلام سے جو ساڑھے نوسو سال تک اپنی قوم میں دعوت وتبلیغ کرتے رہے، کہا گيا کہ آپ نے اس دنیا کی زندگی کو کیسا پایا؟ فرمایا: اس شخص کی طرح جو ایک دروازہ سے داخل ہوا اور دوسرے دروازہ سے نکل گيا ہو ۔ بہر حال ہماری زندگی کے جو صبح شام گذرتے ہیں وہ ہمیں دنیا سے دور اور آخرت سے قریب کرتے ہیں۔ پھر قابل مبارک باد ہے وہ انسان جو اپنی مختصر سی مدت حیات کو غنیمت جان کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی بجالا اور عبرت وموعظت کے رونما ہونے والے واقعات سے نصیحت حاصل کرے اور بدنصیب ہے وہ شخص جو فرصت کے اوقات کو لہو ولعب اور غفلت کی نذر کر دے ۔ یہاں تک کہ موت اس کے سینے پر دستک دینے لگے اور وہ کف افسوس ملتے ہو دار فانی کو الوداع کہے اور اپنی نافرمانیوں پر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزاؤں کا مستحق ٹھہرے(والعیاذ باللہ)۔ یقینا بہتر انسا ن وہ ہے جس کی عمر طویل ہو اور اسے نیکیوں کی توفیق بھی حاصل ہو لیکن جس کی عمر لمبی ہو اور وہ بدعملیوں میں بڑھتا چلا جائے تو وہ بڑا بدنصیب اور نہایت برا شخص ہے ۔
بزرگو اور دوستو ! ہم سے ایک سال ہجری ابھی رخصت ہوگيا ، اس کے شب وروز گذرگئے، اس کے صحیفے ہمارے اعمال خیر وشر کے ساتھ لپیٹ دیے گئے۔ گذرے ہو ایام نہ پلٹ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم اپنی کوتاہیوں کی اب تلافی کرسکتے ہیں ۔ اگر نیا سال اور اس کے ایام ہمیں نصیب ہوں اور ہم اس کا استقبال توبہ و استغفار اور انابت الی اللہ کے ذریعہ کریں توفوت شدہ اعمال اور اوقات کا تدارک ممکن ہے۔ معلوم نہیں جو سال گذر گيا اس کے متعلق اللہ تعالی ٰ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس نئے سال میں وہ ہمارے سلسلہ میں کیا فیصلہ کرنے والا ہے، ہم میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ اس نئے سال کو مکمل بھی کرپا گا یا اس کے اختتام سے قبل موت اس کا خاتمہ کردے گی، موت تو اچانک آتی ہے تو جوکوئی موت آنے سے قبل موت کی تیاری کرلیتا ہے وہی خوش بخت اور توفیق الہٰی سے بہرہ ور ہے ۔ ورنہ عام لوگ تو غفلت وبےحسی کی دبیز چادر اوڑھے ہو ہیں۔ نہ انہیں موت کا ڈر ہے نہ آخرت کے عذاب کا خوف۔ سفرزندگی کے مراحل طے ہوتے جارہے ہیں، صحائف اعمال لپیٹے جارہے ہیں اور ہر قدم قبر کی طرف بڑھتا جارہا ہے مگر غفلت وبےحسی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم نے سال گذشتہ کیا اچھا کیا اور کیا برا کیا ۔
اگر اچھا ئياں نظر آئيں تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کریں اور خیر کی راہ پرگامزن رہیں، نیکیاں کرتے رہیں یہاں تک کہ ایمان وعمل کی راہ پر ہوتے ہو ہم موت کو گلے لگائيں اور اگر ہمارا سال شر وفساد کے کاموں میں گذر گیا تو سچی توبہ کریں اور زندگی کے باقی ماندہ ایام فوت ہوجانے سے قبل تلافی مافات ضرور کر لیں۔
میمون بن مہران رحمہ اللہ کا قول ہے:
(لا خیر فی الحیاۃ إلا لتائب أو رجل یعمل فی الدرجات)
“زندگی میں کوئی بھلائی نہیں ہے، مگر توبہ کرنے والے کےلیے یا اس شخص کے لیے جو بلند درجات کے حصول کی خاطر عمل کرتا ہے ۔ یعنی توبہ کرنے والا سچی توبہ کے ذریعہ سابقہ گناہوں کو مٹا لیتا ہے اور عامل بلندی درجات کےلیے کوشاں رہتا ہے۔ ان دو قسم کے علاوہ جو لوگ ہیں وہ گھا ٹے میں ہیں ۔ بہر حال جو چيز انسان کے توبہ کرنے اور اعمال صالحہ بجا لانے میں معاون بنتی ہے وہ ہمیشہ موت کی یاد ہے جیسا کہ رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے:
(أکثروا ذکر ھاذم اللذات یعنی الموت) (رواہ الترمذی بإسناد صحیح عن ابن عمر)
«لذتوں کوختم کردینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔» جو کوئی اپنی موت کو یاد کرتا ہے وہ تنگی میں بھی کشادگی اور کشادگی میں بھی تنگی محسوس کرتا ہے، موت اسے محاسبۂ نفس اور صلاح وتقوی کے کاموں پر آمادہ کرتی ہے، شہوات اور خواہشات نفس کے پیچھے لگنے سے روکتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: (من أکثر ذکر الموت أکرم ثلاث ۔۔ الخ)
“جو کثرت سے موت کو یاد کرتا ہے تین چیزوں سے بہرہ ور ہوتا ہے:۱۔ جلد توبہ کرلیتا ہے ، ۲۔قلب کو قناعت حاصل ہوتی ہے ۳۔ عبادتوں کی ادائيگی میں چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ اور جو اپنی موت کو بھلا بیٹھتا ہے اسے تین طرح کے مصائب سے دوچار ہونا پڑتا ہے:۱۔ توبہ میں ٹال مٹول۲۔ بقدر ضرورت ملنے والی روزی پر بےاطمینانی ۳۔عبادت میں سستی وکا ہلی۔
اللہ کے بندو! اہل بصیرت اور اللہ کی تائید وتوفیق سے بہرہ مند بندے دنیا کی حقیقت اور اس کی بے ثباتی کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لیے اس کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے، دنیا کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، موت انہیں نجات کی راہ چلنے، اطاعت وبندگی کو لازم پکڑنے اور معصیت وضلالت سے بچنے پر ابھارتی ہے۔ بقول حسن بصری رحمہ اللہ:
(إن الموت قد فضح الدنیا فلم یدع لذی لب بھا فرحا)
"موت نے دنیا کو اس قدر رسوا اور بےوقعت کردیا ہے کہ عقل مند آدمی کو اس سے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔"
لہذا ہم کیوں نہ دنیوی نعمتوں کے مقابلہ میں ایسی نعمت تلاش کریں جس پر موت اور زوال کا سایہ بھی نہیں پڑسکتا ۔ یقینا اہل جنت موت سے مامون ومحفوظ دائمی لذتوں میں ہوں گے۔ لہذ ہم اپنی موت سےقبل موت کی تیاری کریں اور موت کے بعد کے شدائد اور خوفناک حالات کے لیے توشہ اختیار کریں۔ یقین جانئے ہرمرنے والا شخص نادم وپشیمان ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
ما من أحد یموت إلا ندم، قالو: وما ندامتہ یا رسول اللہ؟ قال إن کان محسنا ندم أن لا یکون ازداد، وإن کان مسیئا ندم أن لا یکون نزع (رواہ الترمذی وغیرہ عن أبی ھریرۃ)
"ہرمرنےوالا لازماً ندامت وشرمندگی کا اظہار کرتا ہے، صحابہ نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول ! اس کو ندامت کیوں ہوتی ہے؟ فرمایا اگر وہ نیک ہوتا ہے تو ندامت اس بات کے لیے ہوتی ہے کہ اس نے مزید نیکیاں کیوں نہ کیں اور اگر بدعمل ہوتا ہے تو نادم ہوتا ہے کہ کیوں نہ بدعملیوں سے بازرہا، کیوں نہ اچھےعملوں کے لیے تگ ودو کی۔
قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ:
" کوتاہیاں کرنے والا اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنے یادنیا سمیٹنے اور شہوات کی تکمیل کے لیے تمنا اور آرزو نہیں کرتا۔ وہ اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں دو بارہ لوٹ کر آ تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی بجا لا ۔ مگر موت کے آثار ظا ہر ہونے یا مرجانے کےبعد اس قسم کی آرزوئيں محض بےکا ر ہیں ۔
اس دنیا کی زندگی میں لوگوں کا عجیب حال ہے، کتنے ہی غافل ہیں جنہیں موت تلاش کررہی ہے، کتنے ہی لاپروا ہیں جنہیں ابھی صحت وعافیت نصیب ہے جو جوانی کی طاقت، مالداری اور قوت پر شاداں وفرحاں نظر آرہے ہیں۔ شاید انہیں قوت کے بعد حاصل ہونے والے ضعف اور عزت کے بعدملنے والی ذلت کا احساس وشعور بھی نہیں ہے۔ آئےدن ہنستا کھیلتا جیون، عیش وعشرت میں ڈوبی ہوئی زندگی اچانک موت اور ہلاکت سے دو چار ہوتی ہے۔ صحت مند آدمی اچانک لا علاج مرض سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ایک طرف اموال اور اونچے محلات چھوڑنے کا غم لاحق ہے، دوسری طرف اولاد کے ضیاع کا خوف ستا رہا ہے، بیماری ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، اب حسرت وندامت کے آنسو بہانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایسے حالات کا روز انسان اپنے گرد وپیش میں مشاہدہ کرتا ہے مگر ہوش کے ناخن نہیں لیتا، دوسروں سے عبرت ونصیحت حاصل نہیں کرتا۔ کیا پتہ ہمیں بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑے۔ بغیر کسی سابق مرض اور تکلیف کے موت یکبارگی ٹوٹ پڑے اور بغیر کسی مہلت اور انتظار کے ہمیں اپنی آغوش میں لے لے اور ہم اپنی لمبی چوڑی آرزوئيں اور بےتحاشہ مال ومتاع چھوڑ جائيں۔
وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ [ق: 19]
”اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی، یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا”۔
آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
( لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ) [ق: 22]
“یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پرده ہٹا دیا پس آج تیری نگاه بہت تیز ہے”۔
کاش ایسی ہی تیز نظر دنیا میں ہوتی تو اپنی آخرت اور اس کے انجام سے بےخبر نہ رہتا۔
اللھم سلم، اللھم سدد۔
بھائيو اور دوستو! آج عمل ہے حساب نہیں، کل حساب ہوگا عمل نہیں۔ جو وقت کوتاہیوں کی نذر ہوگيا اس کی تلافی کی جائے، بقیہ زندگی کو جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ کس کی کتنی زندگی باقی ہے اسے نیکی کے کاموں میں لگایا جا تاکہ خاتمہ بالخیر نصیب ہو۔ لہذا یوم الحساب اور بڑی پیشی کے لیے خود تیاری کی جا۔
( يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ ) [الحاقة: 18]
”اس دن تم سب سامنے پیش کیے جاؤ گے، تمہارا کوئی بھید پوشیده نہ رہے گا”۔
پھر اعمال کے لحاظ سے نامۂ اعمال دائيں یا بائيں ہاتھ میں دیا جا گا۔
آیئے، ارشاد نبوی کے مطابق موت سے قبل زندگی کو، بڑھاپے سے قبل جوانی کو، مشغولیت سے قبل فرصت کے میسر لمحات کو، بیماری سے قبل صحت کو اور فقیری سے پہلے مالداری کو غنیمت سمجھیں۔ نئے سال ہجری کا نیک نیتوں اور سچے ارادوں سے استقبال کریں۔ زندگی کا ایک نیا صفحہ اور ایک نیا باب یہاں سے شروع کریں جو (إن شاء اللہ) گناہوں کے سیاہ دھبوں سے صاف ستھرا رہےگا اور اس میں توبہ، اللہ تعالیٰ کی طرف رجعت اور واپسی، صلاح وتقوی ٰ کے کاموں سے محبت، اللہ کے دین کی نصرت وحمایت جیسے اچھے اور صالح اعمال کےلیے ہی جگہ رہی گی:
اللھم اجعل الحیاۃ زیادۃ لنا فی کل خیر واجعل الموت راحۃ من کل شر۔
بھائیو! خالص اور سچی توبہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں۔ بندوں کے گناہ چاہے جتنے ہوں، آسمان کی بلندی کو کیوں نہ چھولیں، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مغفرت اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔
ارشاد باری ہے ( وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ) [الأعراف: 156] ”اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے۔ تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔”
جو شرک ومعصیت سے اجتناب کرتے ہیں، نیکی کی راہ پرگامزن رہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے حقدار ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو بندہ کی سچی توبہ سے اس مسافر سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کی سواری تمام تر سامان سفر اور زادراہ کے ساتھ چٹیل میدان میں گم ہو جائے اورآدمی تھک ہار کر ایک درخت کے سایہ میں سوجائےکہ اسے موت ہی کا انتظار ہے۔ اتنے میں جب اس کی آنکھ کھلے تو اپنی سواری کو سامانوں سے لدی پھدی اپنے سامنے موجود پائے اور فرط مسرت میں یہ پکاراٹھے: اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔ (صحیح بخاری ومسلم عن أنس) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) [الزمر: 53]
” (میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں توبۃ النصوح اور اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازے ، آمین۔
( وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ ١٩ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ذَلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ ٢٠ وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ 21 لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ) [ق: 19 - 22]
” اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی، یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا۔ اور صور پھونک دیا جائے گا۔ وعدہٴ عذاب کا دن یہی ہے۔ اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا۔ یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پرده ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے ۔”
بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی و إیاکم بالذکر الحکیم۔
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی عبد اللہ ورسولہ خاتم النبیین وعلی آلہ و أصحابہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔
بھائيو اور بہنو! ہجری سال کی آمد کی مناسبت سے عام طور پر خطبات، دروس اور لکچرز کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کی تفصیلات، تاریخی واقعہ اور قصہ کے طور پر بیان کی جاتی ہیں ۔ پھر بھی ہمارے دلوں میں ہجرت کے عظیم واقعہ کا کوئی خاص مثبت اثر نہیں پڑتا ہے اور نہ ہی ہمارے اعمال واخلاق کی اصلاح ہوپاتی ہے۔ گویا ہجرت کی یاد ہماری سالانہ عادت بن چکی ہے۔ ضرورت ہے ہجرت کے معنی اور مدلول کو سمجھنے کی۔
ہجرت کے لغوی معنی ہیں انسان کا دوسرے سے اپنے جسم یا قلب یا زبان کے ذریعہ مفارقت اور جدائی اختیار کرنا۔ اور شریعت میں ہجرت نام ہے بلاد کفر کو چھوڑ کر ایسی جگہ چلے جانے کا جہاں ایک مسلمان اپنے دین پر آزادی سے عمل کرسکے۔ اس طرح برے لوگوں کی صحبت وہم نشینی اور برے اعمال ومذموم عادات سے مفارقت کا نام بھی ہجرت ہے ۔ اعلائے کلمۃ اللہ اور متاع دین کی حفاظت کی خاطر ترک وطن کے ساتھ برے اعمال واخلاق اور خلاف شرع حرکات وسکنات سے جدائی اور علیحدگی اختیار کرنا ہی اصل ہجرت ہے۔ ورنہ بلاد کفر سے نکل جانے کے بعد بھی اگر آدمی برے اعمال سے علیحدہ نہیں ہوتا تو صرف جسمانی علیحدگی کا کیا فائدہ۔ اس لیے حدیث صحیح میں اصل ہجرت، اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑنا قرار دیا گيا ہے:
(المھاجر من ھجر ما نھی اللہ عنہ) (صحیحین عن عبد اللہ بن عمرو)
ہجرت، ابوا لانبیاء ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور خلیل اللہ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت وشریعت کا اہم جزء ہے۔ قیام مکہ کے دوران مشرکین کے ظلم سے تنگ آکر مسلمانوں نے دو مرتبہ ہجرت کی اور جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو بھی اجازت دےدی ۔ چنانچہ صحابہ کرام اپنے گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر اپنے دین کی حفاظت اور اسلام کی نشر واشاعت کے لیے مدینہ ہجرت کر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم کارنامہ پر آپ کی خوب تعریف فرمائی۔ قرآن کریم میں ہجرت کو جہاد کے ساتھ بیان کیا گيا ہے اور مہاجرین افضل صحابہ گردانے گئے۔ دار الکفر سے دار الاسلام اور دار الخوف سے دارالامن کی طرف ہجرت شریعت اسلامیہ کا غیرمنسوخ حصہ ہے۔ جب بھی مسلمان کسی خطۂ ارض میں اپنے دین پر عمل کرنے میں تنگی محسوس کریں گے اور دین پر قائم رہنا ان کے لیے مشکل امر بن جائےگا ان پر ہجرت واجب ہوگی۔
حدیث میں آیا ہے:
(لا تنقطع الھجرۃ حتی تنقطع التوبۃ ولا تنقطع التوبۃ حتی تطلع الشمس من مغربھا) (سنن أبی داود)
“ہجرت منقطع نہ ہوگی جب تک کہ توبہ کا دروازہ بند نہ ہو جا اور توبہ ختم نہ ہو گی، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔”
فتح مکہ کے بعد مکہ سے یا دار الاسلام سے دارالاسلام کی طرف ہجرت ختم کردی گئی تھی۔ دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت ختم نہیں ہے۔
افسوس کہ ہم ہجرت کی با تیں تو کرتے ہیں مگر دین میں سب سے سنگین گناہ، شرک، عبادۃ القبور اور بدعات وسیئات سے ہجرت اور مفارقت اختیار نہیں کرتے ہیں۔ کفار ومشرکین اور یہود ونصاری کے طریقوں سے علیحدگی اختیار نہیں کرتے۔ یقینا اسلامی تاریخ کے اندر ہجرت مدینہ کے واقعہ کی بڑی اہمیت ہے ۔ یہاں سے اسلام کی ترقی کا زریں عہد شروع ہوتا ہے۔ اس لیے خلیفہ راشد عمر فاروق نے صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد اسلامی تاریخ کا ہجرت کے سال سے آغاز فرمایا۔ جبکہ دنیا میں رائج دوسری تاریخیں کسی بڑی ہستی کی پیدائش ووفات سے تعلق رکھتی ہیں ۔ تمام مسلمانوں کی اسلامی ہجری تاریخ سے بےتوجہی اور میلادی /عیسوی تا ریخوں کا دھڑلے سے استعمال قابل افسوس ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ہجری تاریخیں اکثر یاد نہیں رہتیں۔
شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر کلنڈر سے ہجری تاریخیں نقل کر لی جاتی ہیں اور بس معاملہ یہیں ختم۔
بزرگو اور دوستو! ماہ محرم سے نئے سال ہجری کا آغاز ہوتا ہے اور ذی الحجہ پر ختم ہوتا ہے ۔ سال ہجری کا آخری مہینہ بھی حرمت والا ہے اور پہلا مہینہ جو محرم کے نام سے ہی موسوم ہے نہایت پا کیزہ اور حرمت واحترام کا مہینہ ہے جس میں بطور خاص گناہوں سے اجتناب کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
اس ماہ محرم کی دسویں تاریخ جو عاشورا کہلا تی ہے، بڑی با عظمت ہے۔ صحیحین میں ابن عباس سے مروی حدیث کے اندر اس کو “یوم عظیم” بہت عظمت والا دن کہا گيا ہے۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے ایمان واہل ایمان کوعزت وغلبہ عطا فرمایا تھا۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو فرعون کے ظلم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت ڈبودیا گیا۔ چنانچہ شکرانہ میں موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس دن کا روزہ رکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نحن أحق بموسی منکم
“یہودیوں کے مقابلہ میں ہم موسیٰ علیہ السلام سے قربت اور ان کی خوشی میں شریک ہونے کے زیادہ مستحق ہیں۔”
چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ صحیح مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کےروزہ سے متعلق سوال کرنے پر فرمایا:
إنی احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ
“مجھے اللہ سے امید ہے کہ اس روزہ کے بدلے ایک سال گذشتہ کے گنا ہوں کو مٹادےگا۔”
حیات طیبہ کے آخری محرم الحرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ ظاہر کیا کہ اگر آپ آئندہ سال با حیات رہے تو یہودیوں کی مخالفت کرتے ہو نویں کا روزہ رکھیں گے۔ (أخرجہ مسلم عن ابن عباس)
یعنی دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھیں تاکہ عاشوراء (دسویں محرم ) کے روزہ کا ثواب بھی مل جائے اور نویں کا ایک روزہ مزید رکھنے سے یہودیوں کی مخالفت بھی ہوجائے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ ماہ محرم کا احترام کریں اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نویں اور دسویں محرم کے دوروزے رکھیں اور خرافات ومنکرات سے پرہیز کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور منہج صحابہ کو اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرم ،
وصلوا علی البشیر النذیر فإن اللہ تعالی یقول:
) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 56 ) [الأحزاب: 56]
” اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔”