إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله۔
أما بعد: فإن خیر الحدیث کتاب اللہ، وخیر الھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ فی النار۔
وقد قال اللہ تبارک وتعالی فی کتابہ المجید:
( إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا) [النساء: 58]
“اللہ تعالی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو! یقینا وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت اللہ تعالی تمہیں کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالی سنتا ہے اور دیکھتا ہے۔”
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
(الدین النصیحۃ، الدین النصیحۃ، الدین النصیحۃ، قلنا لمن یا رسول اللہ! قال للہ ولکتابہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتھم) [رواہ الإمام مسلم فی صحیحہ عن أبی رقیۃ تمیم بن أوس الداری رضی اللہ عنہ، کتاب الإیمان حدیث: 95]
برادران اسلام وخواتین ملت:!مذہب اسلام نے خیرخواہی اور امانت داری پر بہت زیادہ ابھارا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بطور خاص نماز، زکوۃ اور ہر مسلمان کے لیے خیرخواہ بننے کی بیعت لیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(بایعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی إقامۃ الصلاۃ و إیتاء الزکاۃ والنصح لکل مسلم) (رواہ البخاری)
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث میں عامۃ المسلمین کے لیے عمو می طور پر اور حکمراں طبقہ کے لیے خصوصی طور پر اور حکمرانوں کی جانب سے اپنی رعایا کے لیے خیرخواہی کی زبردست تلقین ونصیحت وارد ہے۔ قرآن کریم نے کئی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی صفتوں میں ایک خاص صفت ان کی اپنی امت کے لیے خیرخواہی کو بتایا ہے۔ نصح یا نصیحت کے معنی عام طور سے ہماری اردو زبان میں خیرخواہی کیا جاتا ہے۔ ویسے یہ لفظ “نصح العسل” سے ماخوذ ہے۔ شہد کو چھاننا اور اسے خالص بنانا کہ اس میں موم یا کسی دوسری شئ کی بالکل آمیزش اور ملاوٹ نہ ہو۔ یہ بڑا ہی جامع کلمہ ہے۔ خود عربی زبان میں یا دنیا کی دیگر زبانوں میں اس ایک لفظ کا ایک لفظ سے معنی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ گویا ایک جامع ترین لفظ ہے جو زبان رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ادا ہوا ہے۔ بہرحال جیسا کہ عرض کیاگیا، نصیحت، نصح سے ہے جس کے معنی خالص، پیور، ہر قسم کی ملاوٹ سےپاک وصاف چیز کے ہیں۔ اور اس سے مرادیہ ہے کہ ہمارے اورآپ کے دل میں ہراس شخص کے لیےجس کے ہم خیر خواہ ہیں، کسی طرح کی کوئی کدورت اور دھوکہ وفریب نہ ہو اور ہم اس کے لیے ہر بھلائی کے خواہاں ہوں۔ اور جس طرح ہم خود ہر شر وفساد سے بچنا چاہتے ہیں، اسی طرح اسےبھی ہر فتنہ وشرسے بچا نے کے آرزو مند ہوں۔ یہی ایک مخلص مومن کی پہچان ہے۔
جیسا کہ ارشادنبوی ہے :
“لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ” (رواہ الشیخان عن أنس)
“ تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ پسند کرے جو اپنے لیےپسند کرتا ہے۔”
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام جو انسانوں میں سب سے برگزیدہ اور افضل ہیں،اپنی قوموں کے لیے بڑے ہی ناصح اور امین ہوا کرتے تھے، کیوں کہ ان کی نبوت ورسالت کا مقصد ہی انسانوں کو اللہ تعالیٰ اوربندوں کے حقوق سےآگا ہ کرنا اور خیر کی دعوت دینا اورہرشر سے ڈرانا اور اس سے باز رہنے کی تلقین کرنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی بابت فرمایا کہ انہوں نےاپنی قوم سے فرمایا:
( أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ) [الأعراف: 62]
“تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔”
ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے کہا:
( أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ) [الأعراف: 68]
“تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیرخواه ہوں۔”
اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنی قوم سے کہا تھا:
( فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ ) [الأعراف: 79]
“اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچادیا تھا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم لوگ خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔”
حاضرین گرامی!صحیح مسلم کے حوالہ سے تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث “الدین النصیحۃ” آپ کے سامنے پڑھی گئی ہے ۔ یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے، اس کے اندر مختصرالفاظ کے ذریعہ دین کی پوری حقیقت اور اس کا کمال بیان کردیا گیا ہے۔ دین اسلام ایمان اور احسان وغیر امور کے مجموعہ کا نام ہے۔ گویا دین کے اصول وفروع سب کے سب دین کا حصہ ہیں، انسانیت کی فلاح وبہود کے اسباب ہیں جن کو بروئے کارلا کر ہم ایک اچھے اور سچے مسلمان ہوسکتے ہیں اور دنیا کو امن وشانتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں نیز آخرت کے دائمی فوز وفلاح سےبہرہ ور ہوسکتے ہیں، گویا کل دین خیر خواہی کا نام ہے۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ خیر خواہی کس کے لیے؟یعنی خیر خواہی کے مواضع اور مقامات کیا ہیں۔ تو آپ نےفرمایا سب سے پہلی خیر خواہی اپنے رب تعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا اور ہماری دینی تربیت کے لیے آسمان سے سب سے جامع اور کامل کتاب قرآن مجید سب سے برگزیدہ اور افضل رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔اس رب تعالیٰ کا حق ہم بندوں پر سب سے مقدم ہے اور اس کے حق کو خالص طور پر اسی کے لیے ادا کرنا رب تعالیٰ کی خیرخواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق اعظم کاخلاصہ یہ ہے کہ ہم اسی ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کو اپنا معبود ومسجود اور حاجت روا ومشکل کشا سمجھیں۔ اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں، اسی سے اپنی حاجتوں کا سوال کریں، اس کے وہ تمام اسماء وصفات جو کتاب اللہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں، انہیں بلاتحریف وتاویل اور بلاتشبیہ وتمثیل مانیں اور ان ناموں اور صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کو سمجھیں اور خود کو بھی عمدہ صفات سے آرستہ کریں۔ رب تعالیٰ کے کسی نام یا صفت کا انکار، یا اس کے حقیقی اور ظاہری معنی سے تحریف وتاویل یا اس کی کسی صفت کو مخلوق سے مشابہت دینے یا اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کے ذریعہ مثال دینے کی ہر گز جسارت نہ کریں کیونکہ یہ تمام حرکتیں ناجائز، بلکہ شرک کے مترادف ہیں ۔ اسی طرح جو عبادتیں اللہ پاک نے ہم پر واجب کی ہیں ان کو خالصۃ للہ ادا کریں۔ ریاکاری اور نام ونمود کی خواہش سے گریز کریں کہ یہ ضیاع عمل کا سبب ہے۔ واجبات کے علاوہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کریں، اور جن چیزوں سے اللہ نے منع فرمایا ہے، خاص کر جو چیز یں شریعت میں حرام ہیں ان سے لازماً اور کلی طور پر اجتناب کریں ۔ ساتھ ہی مکروہات سے بھی بچنے کی کوشش کریں ۔ کیوں کہ تمام حرام اور مکروہ اشیاء یا تو ہمارے دین کے لیے یا ہماری اپنی ذات کے لیے، ہمارے گھر اور خاندان کے لیے اور انسانی معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان سے بچنے میں ہمارا ہی فائدہ ہے ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کو اور خاص کرحق توحید کو یعنی اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کے حق کو جو سب سے اول اور مقدم ہے، بجالا تے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ اور دنیا وآخرت ہر دوجگہ میں امن وعافیت سے رہیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ کی کتاب قران مجید کے لیے خیرخواہ بنو۔ قرآن کریم جو الفاظ ومعانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کے کلام الہٰی ہونے پر ایمان رکھو۔ “الحمد للہ” وہ ہر تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے۔ یہ کتاب تمام سابقہ آسمانی کتابوں کے لیے ناسخ اور ان کی تعلیمات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہے۔ جو قرآن کریم پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اسی طرح بعض فرقوں کا یہ گمان کہ قرآن مجید کے بعض اجزاء یا بعض سورتیں اور آیتیں حذف کردی گئی ہیں یا حذف کی جاسکتی ہیں، کفر کو مستلزم ہے۔ اس کتاب کو دنیا وآخرت کی فلاح ونجات کاذریعہ سمجھ کر پڑھنا، اس کو صحیح احادیث اور اقوال صحابہ اور ان کی تفسیر کی روشنی میں سمجھنا، اس پر عمل کرنا، اعمال حسنہ اور اخلاق کریمانہ کواختیار کرنا اور برے اعمال واخلاقِ سیّئہ جن کی قرآن نے نشاندہی کی ہے ان سے دامن بچانا، قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے معاملات حل کرنا اور کرانا اور قرآن کو اپنے قلبی امراض شرک وبدعات اور معاصی وسیئات جیسے امراض خبیثہ اور اسی طرح مختلف جسمانی امراض کا علاج اور ذریعۂ شفا سمجھنا قرآن کریم کے ساتھ خیر خواہی ہے۔ مسلمانوں کا اس سے بڑا ہی گہرا اور مضبوط رشتہ ہونا چاہئے۔ اس کتاب پر عمل پیرا ہوکر اسلاف کرام نے دنیا پر حکومت کی اور اسلام کی عظمت وشوکت کے جھنڈے گاڑے اور ہم اس قرآن سے بے اعتنائی کے سبب ذلیل وخوار ہوئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصح وخیرخواہی کے مقامات میں یہ بھی فرمایا کہ نصیحت وخیر خواہی اللہ کے رسول کے لیے ہے ۔ یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر ایمان لائیں اور آپ کو آخری نبی ورسول جانیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ورسول قیامت تک نہیں آئےگا۔ اور جو اس قسم کا دعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا۔ آپ کی شریعت جو قرآن مجید اور آپ کی صحیح حدیثوں سے مکمل ہے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ آپ کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کریں، آپ کے حکموں کو بجالائیں، آپ کی منع کردہ چیزوں سے بازرہیں ۔ آپ کے فرمودات پر کسی کےقول وفعل کو ترجیح نہ دیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق کریں۔آپ کے فضل کا اعتراف کریں۔ آپ پر بکثرت مسنون صلاۃ (درود) پڑھا کریں اور خاص کر جمعہ کے دن درود شریف بکثرت پڑھنے کی حدیثوں میں ترغیب آئی ہے۔ آپ کا، آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کے اہل بیت مومنین رضی اللہ عنہم اجمعین کا احترام اور توقیر واکرام ضروری سمجھیں۔ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت کو جزوایمان سمجھیں۔ یہ تمام باتیں حقوق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر داخل ہیں ۔ ان حقوق کی ادائیگی اور مناسب توقیر کے منافی امور جو بےادبی اور بد تمیزی سے عبارت ہیں، ان سے ہر حال میں بچیں اور گستاخی کرنے والوں سے سختی سےنمٹیں ۔
نصح وخیرخواہی، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے بھی ضروری ہے اور اس کاتقاضہ ہے کہ ان کے لیے صلاح واستقامت اور تمام معاملات میں درستگی اختیار کرنے کی دعا کی جائے۔ خیر کے کاموں میں ان کی اطاعت کو واجب سمجھیں اور جن کے ذمہ جو کام اور ڈیوٹی لگائی گئی ہے یا جو عہدہ ومنصب دیا گیا ہے اس کا پاس ولحاظ رکھیں اور مفوضہ ذمہ داریوں کو عمدہ طریقہ پر انجام دے کر اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کریں عہدوں اور ذمہ داریوں کو امانت سمجھیں۔ ملک کی سالمیت اور امن وامان کو برقرار رکھنے میں حکمرانوں کا بھر پور تعاون کریں۔
خیرخواہی عام مسلمانوں کے لیے بھی ہم سے مطلوب ہے اور اس کامطلب جیسا کہ ذکر کیاگیا؛ یہ ہے کہ ہم ان کےلیے وہ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور جن چیزوں کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، ان کے لے بھی ناپسند کریں۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کریں۔ گمراہوں کو راہ راست دکھائیں، جاہلوں اور غافلوں کی تعلیم وتذکیر کا فریضہ انجام دیں، بھلائی کا حکم کریں اور برائیوں سے روکیں، مشورہ دینے میں خیانت اور دھوکہ دہی سے ہرگز کام نہ لیں، بیع وشراء اور دیگر معاملات میں شرعی ہدایات کا ضرور خیال رکھیں۔ بدعہدی، وعدہ خلافی،غیبت وچغل خوری اور دوسروں کی حق تلفی اور عدل وانصاف میں منہ دیکھی وغیرہ سے پرہیز کریں ۔ مگر افسوس کہ اس طرح کی واجب خیر خواہی آج مسلمانوں سے مفقود اور عنقاہے، ہر طرف انانیت، خودغرضی، مکروفریب، تجارتی معاملات میں دھوکہ اور جھوٹ اسی طرح مقدمات میں جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہیاں پیش کرکے اپنے حق میں ناحق فیصلہ کرالینےکاچلن عام ہے۔ ہمارے بیشتر کاروبار اس پر قائم ہیں۔اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر چپراسی تک کورشوت کاچسکالگ گيا ہے۔ مسلم معاشرہ میں بغض وحسد، کینہ کپٹ اور کبر وغرور کا مظاہرہ عام ہے، العیاذ باللہ۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے،انہوں نے قسم کھا کرفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب اور چہیتا بندہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کے پاس اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کے پاس محبوب بنادے اور ہر طرف نصح وخیر خواہی کا معاملہ کرتا پھرے۔
و باللہ التوفیق وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العلمین۔
الحمد اللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، وبعد! فقد قال اللہ تعالی:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) [الأنفال: 27]
“ اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفات چیزوں میں خیانت مت کرو۔”
دینی بھائیو اور بزرگو!اسلام میں امانت داری کی بھی بڑی تلقین موجود ہے۔ جو امانت دار نہیں وہ مومن نہیں۔ شریعت نے ہر باب اور معاملہ میں خیانت سے منع فرمایا ہے۔ وہ تمام حقوق جن کی رعایت ونگہداشت کا انسان پابند بنایاگیا ہے خواہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہوں یا بندوں کے۔ تمام شرعی احکام،اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں جن کا بوجھ انسانوں نے اٹھایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان:
( إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ) [الأحزاب: 72]
“ ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گ (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بڑا ہی ظالم جاھل ہے۔”
میں امانت سے احکام شریعت مراد ہیں۔ لہذا جس نے شرعی پابندی کا پورا پورا لحاظ کیا فائز المرام اور عظیم اجر وثواب سے بہرہ ور ہوا اورجس نے ظاہرا تسلیم کیا مگر دل سے نہ مانا اورجس نے ظاہری اور باطنی دونوں طریقوں سے شرعی احکام کا انکار کیا، غفلت برتی وہ منافق وکافر قرار دیا گيا۔ سورۂ احزاب کی آخری آیت میں امانت الہٰی یعنی شرعی احکام کی پابندی کرنے والے مومنین ومومنات کے لیے بشارت اور منافقین ومنافقات اور مشرکین ومشرکات کے لیے عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے۔
اللہ کے بندو!جس طرح عبادات الہٰی، اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور ہم ان کی ادائیگی کے شرعا مکلف اور پابند ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی ودیعتیں (یعنی وہ سامان جو لوگ ایک دوسرے کے پاس کچھ وقتوں کے لیے چھوڑدیتے ہیں اور ان کے عیوب اور رازدارانہ امور) بھی امانت ہیں۔ بادشاہ، وزراء اور افسران سے لے کر کلرک اور چپراسی تک ہر کوئی امانت دار ہے اور اس پر عائدذمہ داریاں، امانت ہیں۔ قاضی اپنے حکم قضامیں، مدرس اپنی تدریس میں امین ہے۔ اسی طرح بیوی اور بچو ں کی دینی واخلاقی تربیت بھی ایک اہم امانت ہے اور اس میں کوتاہی کرنے والا عند اللہ مسئول ہے۔ اسلام میں صلاح ومشورہ بھی بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ جس سے مشورہ طلب کیاجائے اس پر لازم ہے کہ مشورہ طلب کرنے والوں کو صحیح مشورہ دے کیونکہ یہ بھی ایک امانت ہے اور مشورہ طلب کرنے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسے ہی شخص سے مشورہ طلب کرے جو اس کا مخلص اور ہمددر ہو۔ اس کے جذبات کو سمجھتا ہو، اسی کی خوشی میں اپنی خوشی اور اس کی تکلیف میں اپنے لیے تکلیف پاتا ہو۔ ورنہ غیر مخلص جس کی حیثیت ایک چھپے ہوئے دشمن کی ہو تو وہ کبھی بھی صحیح مشورہ نہیں دے گا۔
دوسری بات یہ کہ ایسے ہی شخص سے مشورہ طلب کرے جو معاملہ فہم ہو۔ کسی ناواقف شخص سے جو مطلوبہ امور کی بابت صحیح علم نہ رکھتا ہو، مشورہ طلب کرنا بجائے خود جہالت وحماقت ہے نیز مشورہ ایسے ہی شخص سے طلب کیا جائے جو مومن متقی ہوکیونکہ ایمان اور تقویٰ دھوکہ وخیانت سے انسان کوروکتے ہیں۔
مال کی طرح بات اور کسی کا راز بھی امانت ہے اگر اس پر کوئی شخص امین بنایاجائے تو اس کے لیے بات یاراز کا افشاء خیانت ہے۔ اور آج عام طور پر اس معاملے میں لوگ بڑی خیانتیں کرتے ہیں۔ کسی بات پر اختلاف ہوا اور تمام پوشیدہ رازوں کو اگلنا شروع کردیا۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہئے اسی طرح گھر کا ذمہ دار اپنے گھر میں امانت دار ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ) [النساء: 58]
”اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! ۔”
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(أد الأمانۃ إلی من ائتمنک ولا تخن من خانک) (التاریخ للبخاری، أبو داود عن أبی ھریرۃ)
“تمہارے پاس جس نے امانت رکھی ہے اس کی امانت ادا کردو، اور جس نے تم سے خیانت کی ہے، اس کے ساتھ تم مت خیانت کرو۔”
اس کی خیانت کا گناہ اس کے سر ہے، تمہاری امانت داری کا تمہیں ثواب ملے گا۔ امانت دار کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ اس نے لیا ہے اسے ادا کردے۔ لہذا ہرشخص اپنے واجبات وفرائض اور بطورامانت رکھی گئی چیزوں کی ادائیگی کا ازحد لحاظ کرے اور خیانتوں سے پرہیز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ تمام حضرات وخواتین کو خیر خواہ اور امین بنائے۔ آمین۔
اسلامی بھائيو! امانت کی ضد خیانت ہے اور جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے برگزیدہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اسی طرح اللہ اور رسول نے خیا نتوں سے بھی بازرہنے کی سختی سےممانعت فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) [الأنفال: 27]
“ اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفات چیزوں میں خیانت مت کرو۔”
یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ کی الوہیت اور رسول کی رسالت کے تقاضوں کی تکمیل میں کسی قسم کی خیانت وبدعہدی کوراہ نہ دو اور اسی طرح تم اپنے درمیان ایک دوسرے کے حقوق اور اموال وغیرہ امانتوں کے اندر بھی خیانت نہ کرو۔ خیانت یہود ومنافقین کی صفت ہے۔
سورۂ آل عمران کی آیت:
( وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ) [آل عمران: 75]
“اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں، ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے۔”
میں یہود اور ان کی خیانت بیان کی گئی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے :
(آیۃ المنافق ثلاث، إذا حدث کذب وإذا وعد أخلف وإذا أؤتمن خان) (رواہ الشیخان عن أبی ھریرۃ)
“منا فق کی علامت ہے کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب کسی چیز پر امانت دار بنایاجائے تو خیانت کر جائے۔”
حقیقت یہ ہے کہ امانت میں خیانت ظلم ہے اور ظالم کسی حال میں اللہ تعالیٰ کے انتقام سے بچ نہیں سکتا۔ اِلاّ یہ کہ توبہ کرے اور حق والے کا حق ادا کرے ۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے اند آخری زمانہ کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بتائی گئی کہ لوگوں کے سینوں سے اما نتیں ختم کردی جائیں گی۔ گویا ایمان اور فطرت سلیمہ کے نتیجہ میں لوگوں میں جو امانت داری موجود ہے وہ برے اعمال اور بدنصیبی کے سبب رفتہ رفتہ زائل ہو جائےگی۔ جب نور امانت زائل ہوگا تو اس کی جگہ سیاہی آئے گی، پھر سیاہی کے بعد سیاہی مزید گہری ہوتی چلی جائے گی، پھر تو امانت دار تلاش کرنے سے بھی نہ ملے گا۔ یہاں تک کہ خیر اور ایمان سے محروم لوگ ہی لائق ستائش اور قابل تعریف ٹھہریں گے۔
صحیحین میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم، قال عمران: فما أدری قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد قولہ مرتین أو ثلاثا، ثم یکون بعدھم قوم یشھدون ولا یستشھدون، ویخونون ولا یؤتمنون وینذرون ولا یوفون ویظھر فیھم السمن)
“سب سے بہتر زمانہ میرا ہے ، پھر میرے بعد والوں کا، پھر ان کے بعد والوں کا۔ عمران بن حصین کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ دو بار فرمایا یا تین بار۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو بلاطلب کے گواہ بنا کریں گے، خیانت کریں گے اور امانت دار نہیں رہیں گے۔ نذریں اور منتیں مانیں گے، لیکن انہیں پورا نہ کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو جائےگا۔”
العیاذ باللہ، أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم،
) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 56 ) [الأحزاب: 56]