إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد!
قرآن وحدیث کے نصوص پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین وتقویٰ اور حسن اخلاق کو دنیا وآخرت میں شرف وتقدم اور فضیلت وبرتری سے وابستہ کردیا ہے، لیکن شہرت یا لہو ولعب یا حسب نسب یا اس جیسی کسی اور چیز کے ساتھ وابستہ نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے نصوص ودلائل موجود ہیں ۔ جیسے:
(إ ِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) [الحجرات: 13]
“اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ “
“خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ”
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔”
(خیرکم من یرجی خیرہ ویؤمن شرہ)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جس سے خیر کی امید ہو اورجس کے شر کا ڈر نہیں ہو،
“خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی”
“تم میں سب سے بہتر وہ ہےجو اپنے افراد خانہ کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔”
“خیرکم إسلاما أحاسنکم أخلاقا إذا فقھوا”
“تم میں سب سے بہتر اسلام والا وہ ہے، جو تم میں سب سے اچھے اخلاق والا ہو، بشرطیکہ وہ دینی سمجھ والا بھی ہو۔”
اور پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے باعزت ومکرم کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ: ان میں جو سب سے زیادہ متقی ہو، لوگوں نے عرض کیا کہ ہم آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھتے ہیں تو آپ نے خود فرمایا کہ کیا معادن عرب کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ زمانہ جاہلیت میں جو بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی بہتر ہی ہوں گے ۔ بشرطیکہ ان کو دین کی سمجھ ہو۔
“خیرکم من أطعم الطعام أو الذین یطعمون الطعام”
“تم میں بہتر وہ ہے جو کھانا کھلائے یا وہ لوگ جو کھانا کھلاتے ہیں۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ:لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص جو اپنی جان ومال سے جہاد کر رہا ہو یا وہ شخص جو کسی گھاٹی میں اپنے رب کی عبادت کر رہا ہو اور لوگوں کو اپنے شر سے دور رکھے ہو ۔
پوچھا گیا کہ: لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ تو فرمایا کہ:جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو۔ یہ اور ان کے علاوہ دوسرے اور بہت سے دلائل سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک عزت وتکریم اور فضیلت وبرتری تقویٰ اور عمل صالح سے ملتی ہے ۔ جو اللہ کے نزدیک کریم وباعزت ہے مناسب یہی ہے کہ وہ مومنوں کی نظر میں کریم ہو ۔ اگر نہ تو نہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے پیمانے کی تصحیح فرماتے ہیں:
“إن اللہ لا ینظر إلی صورکم و أموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم و أعمالکم”
“اللہ تمہاری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں بلکہ تمہارے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”
مصعب بن سعد کا بیان ہےکہ حضرت سعد نے خیال کیا کہ ان کو دوسروں پر فوقیت حاصل ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اپنے ما تحتوں کے سبب مدد بھی کیے جاتے ہو اور تمہیں روزی بھی ملتی ہے۔
ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو اپنے وفات شدہ آباء واجداد پر فخر ہوگا، جبکہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں، یا اللہ کے یہاں گبریلا سے بھی زیادہ کمتر ہوں گے جو اپنی ناک سےگندگی نکالتا رہتا ہے۔ منافق کو سردار مت کہو، کیوں کہ اگر وہ سردار ہوگابھی تو (یہ کہہ کر) تم اللہ کو ناراض کروگے۔
کیا میں تم کو سب سے بدتر آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں وہ ہے سخت گو اور گھمنڈ وغرور والا انسان اور کیا میں تم کو سب سے بہتر آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ ہے کمزور وناتواں بوسیدہ کپڑے والا انسان جو اگر اللہ کے واسطے سے قسم کھائے تو اللہ اس کی قسم پوری کرادے۔
ابن حبان نے اپنی صحیح (685)میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابو ذر!کیا تم کثرت مال کو ہی مالداری سمجھتے ہو؟ ابو ذر نے کہا کہ ہاں اللہ کے رسول!آپ نے پھر پوچھا:کیا تو قلت مال کو فقیری سمجھتے ہو؟ میں نے جواب دیا ہاں، اس پر آپ نے فرمایا کہ: مالداری دل کی مالداری ہے اورفقر دل کی محتاجی۔ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ: پھر آپ نے مجھ سے پوچھا:فلاں کو جانتے ہو؟ قریش کے ایک آدمی کی طرح اشارہ تھا میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے جواب دیا کہ : وہ اگر مانگے تو اسے ملتا ہے اور اگر کہیں جاتا تو اسے جگہ ملتی ہے پھر آپ نے مجھ سے اہل صفّہ میں سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا کہ تم کیا اسے جانتے ہو؟ تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، اے اللہ کے رسول! میں اسے نہیں جانتا۔ پھر آپ مسلسل اس کا ذکر خیر اور تعریف کرتے رہے یہاں تک کہ میں اس کو پہچان گيا۔ میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول! میں اب اسے پہچان گیا آپ نے پوچھا اس کے بارے کیا خیال ہے؟ تو میں نے جواب دیا کہ وہ اہل صفّہ میں سے ایک مسکین آدمی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: (ھو خیر من طلاع الأرض من الآخرۃ)
شہداء کو دفن کرنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے تھے کہ ان میں سب سے زیادہ قرآن کسے یاد ہے ؟ اگر دو میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ ہوتا تو آپ اسے ہی لحد میں پہلے ڈالتے تھے حتی کہ دفن میں قرآن والے کو ہی تکریم وتقدیم حاصل ہوتی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وصف میں بیان ہوا ہے کہ:
( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) [النحل: 120]
“بےشک ابراہیم ایک امت اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔”
حضرت ابو سفیان سلمان وصہیب اور بلال کے پاس ایک گروپ میں آئے، تو ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے اللہ کی تلوار دشمن خدا کی گردن پر صحیح سے نہیں استعمال کی۔ حضرت ابوبکر نے یہ سن کر کہا: قریش کے بزرگ اور سردار سے تم ایسا کہہ رہے ہو؟ چنانچہ حضرت ابو بکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اس کی خبر کر دی، تو آپ نے فرمایا: اے ابوبکر! تم نے شاید ان لوگوں کو ناراض کردیا، اگر تم نے واقعی ان کو ناراض کردیا ہے تو تم نے اپنے رب کوناراض کردیا۔ آخر حضرت ابو بکر ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا کہ اے بھائیو!میں نے آپ لوگوں کو ناراض کیا ہے؟ کہا کہ نہیں، بھائی اللہ آپ کو معاف فرمائے۔
“اللھم أحینی مسکینا و أمتنی مسکینا و أحشرنی فی زمرۃ المساکین یوم القیامۃ”
“اے اللہ !مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ ، مسکین ہی بنا کر وفات دے اور قیامت کے دن انہی کے ساتھ حشر کر۔”
فقرائے مہاجرین قیامت کے دن چالیس سالوں کی مسافت سے مالداروں کے بالمقابل جنت کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو کہیں بھیجنا چاہا تو آپ نے سب سے قرآن پڑھوایا ۔ چنانچہ ان میں جس کو جو یاد تھا اس نے پڑھا۔ پھر آپ ایک آدمی کے پاس گئے، تو پوچھا کہ اے فلاں! تمہارے پاس کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیاکہ مجھے فلاں فلاں اور “سورۃ البقرۃ” یاد ہے۔ آپ نے پوچھا کہ تمہیں “سورۃ البقرۃ” یاد ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا کہ جاؤ تم ان سب کے امیر ہو۔”
بہت سے پراگندہ حال، دروازہ پر سے بھگا دیے جاتے ہیں حالانکہ ان میں ایسےبھی ہوتے ہیں کہ وہ اگر اللہ کے واسطہ سے قسم کھا لیں، تو اللہ ان کی قسم پوری کر دے۔”
ان دلائل کی روشنی میں ہم دیکھ سمجھ سکتے ہیں کہ مسلم معاشرہ نے کس طرح ایسے لوگوں کی عزت وتوقیر کی ہے جن کا دنیا کی نظر میں کوئی مقام واہمیت نہیں۔ ان کی عزت وتکریم کا سبب دین وتقویٰ اور دین میں سبقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر کی حالت میں ایک نابینا شخص حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم کو مدینہ کاامیر بنا دیتے تھے۔ اسی طرح حضرت سلمان فارسی فارس کی فتح کے بعد مدائن کے امیر بنا دیے گئے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اپنے والد کے پاس ان کی خلافت کے وقت آئے اور شکایت کی۔ میرے لیے تین ہزار درہم اور اسامہ کے لیے چار ہزار درہم متعین کیے گے ہیں۔ جبکہ جس جنگ میں میں شریک ہوا وہ اس میں شریک نہیں ہوئے تو حضرت عمررضی اللہ نے اس کا جواب دیا: میں نے ان کا زیادہ اس لیے کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کے نزدیک تم سے زیادہ محبوب تھے اور ان کے والد بھی تمہارے والد سے زیادہ محبوب تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کا حصہ ان کے مقام ومرتبہ، علم، قرآن اور جہاد (میں شرکت) کے حساب سے متعین کیا۔ اور جب ان کے پاس بحرین کا خراج آیا تو انہوں نے مہاجرین اوّلین کے لیے پانچ ہزار، انصار کے لیے چار ہزار اور ازواج نبی صلی اللہ کے لیے دس ہزار متعین فرمایا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے ابو حذیفہ کے غلام سالم جو ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھے ہوئے تھے، مہاجرین کی امامت کرتے تھےاور ہجرت رسول کے بعد یہی سالم بشمول حضرت ابوبکر وعمر اور ابوسلمہ وزید اور عامر بن ربیعہ مہاجرین اولین صحابہ کو مسجد قباء میں نماز پڑھاتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:ابوبکر ہمارے سردارہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا ہے ۔
حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبد العزی حضرت عمر رضی کے پاس پہنچے، ان لوگوں کےساتھ حضرت بلال اور صہیب بھی تھے۔ حضرت عمر نے بلال اور صہیب کو بلایا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دیا ۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ نےکہا کہ میں نے آج جیسا دن نہیں دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان غلاموں کو اجازت دے دی اور ہم لوگوں کو اپنے دروازہ پربیٹھے چھوڑ دیا، ہمیں انہوں نے اجازت نہیں دی۔ اس پر سہیل بن عمرو جو ایک عقلمند انسان تھے، کہا کہ اے لوگو! اللہ کی قسم! میں تمہارے چہروں کو پڑھ رہاہوں۔ اگر تم لوگ غصہ میں ہو تو خود پر غصہ کرو۔ پوری قوم کو بلایا گیا اور تم بھی بلائے گئے مگر ان لوگوں نے جلدی کی اور تم نے تاخیر کی۔
حضرت حسن کا بیان ہے کہ:اللہ اپنی طرف تیزی سے آنے والے بندے کو، تاخیر سے پہنچنے والے بندے کی طرح نہیں بناتا ۔
جب قتیبہ بن مسلم نے ترکوں سے قتال کرنا چاہا تو محمد بن واسع کے بارے میں پتہ چلایا، بتلایاگيا کہ وہ میمنہ فوج کے دائیں دستہ میں اپنی کمان تھامے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف دکھا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ انگلی میرے نزدیک لاکھوں مشہور تلواروں اور تیز طرار جوانوں سے محبوب ہے۔ دوران حج بنوامیہ کا منادی چیخ چیخ کر بول رہا تھا کہ حج کے بارے میں عطاء بن ابی رباح کے سوا کوئی فتویٰ نہیں دے گا۔ اور ان کو جاننے پہچاننے والے کسی شخص نے ان کا رنگ وروپ بتایا کہ عطاء بن ابی رباح کالے، چپٹی ناک والے، بیکار دستوبازو الے، اندھے شخص ہیں۔
انسانی رابطہ کے اہم ترین مظاہر:
خوت (بھائی چارگی):
اسلامی اخوت ایک ربانی نعمت وعطیہ ہے ۔
برادرانِ اسلام ! بلا شبہ مومنوں کے بیچ باہمی اخوت اور اللہ کے نیک بندوں کے بیچ بھائی چارگی کی نعمت اس امت پر اللہ کے اہم ترین انعامات میں سے ایک ہے۔ جس سے اللہ نے اپنے بندوں کونوازا ہے۔
جیسا کہ فرمایا:
( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آَيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ) [آل عمران: 103]
“اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔”
موالات:
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر مومنوں کے ساتھ موالات ومحبت کو بھی واجب قرار دیا ہے۔ موالات کے بہت سارے مظاہر ہیں جو حسب ذیل ہیں:
مسلمانوں کی جان ومال اور زبان سے مدد ومعاونت، جس کی ان کو اپنے دین ودنیا میں ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ نےفرمایا:
( وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ ) [الأنفال: 72] “اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے، سوائے ان لوگوں کے کہ تم میں اور ان میں عہد وپیمان ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ خوب دیکھتا ہے۔”
مومنوں کے ساتھ موالات کا ایک مظہر ان کے دکھ درد اورمسرت وخوشی میں شریک ہونا بھی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
“ مومنوں کی مثال آپسی محبت ورحم وکرم میں بدن کی طرح ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار پڑتا ہے تو پورا بدن درد وبخار کی وجہ سے بلبلا اٹھتا ہے۔” (متفق علیہ )
اور صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
“المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا”
“مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوتا ہے۔”
پھر آپ نےاپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک کی۔
مومنوں کی محبت کا ایک مظہر ان کے ساتھ خیرخواہی بھی ہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا :
“تم میں کوئی مومن کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔” (متفق علیہ)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ایک دوسرے سے بغض نہ کرو۔ ایک دوسرے سےحسد نہ کرو۔ اور ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو۔ اور اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ ۔ (متفق علیہ)
دوستی کا یہ مظہر ونمونہ اب لوگوں میں ناپید ہو گيا ہے۔ ایک آدمی شکم سیر ہو کر سوتا ہے اور اس کا مسلمان بھائی اس کے پڑوس میں بھوکا رہتا ہے۔ ایک تاجر صف اول میں نماز پڑھتا، پھر اپنی خرید وفروخت میں فریب سے بھی کا م لیتا، اور اپنے کاروبار میں دوسرے کو دھوکہ دیتا ہے۔ “لا حول ولا قوۃ إلا باللہ”
مومنوں کے ساتھ موالات ودوسی ومحبت کا ایک مظہر ان کا احترام وتوقیر ہے۔ ان کی تنقیص اور عیب جوئی اور غیبت سے بچنا بھی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) [الحجرات: 11]
“ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔”
اور آپ نے فرمایا:
“وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھو ٹے پر رحم نہ کرے، اور ہمارے بڑے کی عزت نہ کرے۔” (ترمذی وأحمد)
اللہ رحم فرمائے، آج آپ مسلما نوں کی حالات پرنظر دوڑائیں تو عجیب وغریب چیزیں دیکھیں گے۔ کتنے چھوٹے ایسے ہیں جو بڑوں کے ساتھ گستاخی کرتے ہیں۔ اور ان کی عزت وتوقیر نہیں جانتے۔ بلکہ کتنے جاہل وبےوقوف ایسے بھی ہیں جو وارثین انبیاء پر بڑائی دکھاتے ہیں اور نیک وبزرگ حضرات کا مذاق اڑاتے ہیں، شریف اور عزت دار لوگوں کی تنقیص کر تے ہیں۔ کتنی عورتیں ایسی ہیں جو دوسری عورتوں کو حقیر سمجھتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ حسن وجمال اور مال میں ان سے کم ہوتی ہیں۔ ایسے کتنے لوگ ہیں جو دوسروں کی عیب جوئی کرتے ہیں۔ اور انہیں برے القاب سے پکارتے ہیں وہ اللہ کی آیتوں سے غافل ہوتے ہیں ۔
مومنوں کی محبت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان تنگی وخوشحالی اور سختی وآرام سب حالتوں میں ان کے ساتھ ہو برخلاف منافقوں کے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ وَإِنْ كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ) [النساء: 141]
“یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا سا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا؟ ۔”
مومنوں سے محبت کا ایک مظہر ان کی زیارت وملاقات اور ان کے ساتھ مل بیٹھنا بھی ہے حدیث قدسی میں ہے:
“وجبت محبتی للمتحابین فیَّ والمتزاورین فیَّ” (أحمد)
“میری محبت میری خاطر آپس میں محبت کرنے والوں اور میری خاطر باہم ملنے والوں کے لیے واجب ہے۔”
مومنوں سے محبت کا ایک مظہر ہے ان کے حق کا پاس ولحاظ چنانچہ ان کی خرید وفروخت پر کوئی خرید وفروخت نہ کرے ان کے بھاؤ پر کوئی بھاؤ نہ لگائے اور ان کے پیغام نکاح پر کوئی پیغام نکاح نہ بھیجے جیسا کہ آپ نے فرمایا:
“لا یبع الرجل علی بیع أخیہ ولا یخطب علی خطبۃ أخیہ” (مسلم)
“ کوئی آدمی اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے خرید وفروخت نہ کرے اور نہ ہی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح بھیجے۔”
ولایت ومحبت کا ایک مظہر مومنوں کے لیے دعا واستغفار بھی ہے۔ اللہ نے اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
( وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ) [محمد: 19]
“(اے نبی!) آپ اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی۔”
کافروں سے براءت اور ان کی مخالفت کا حکم:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تمام امور ومسائل میں کافروں کی مخالفت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ عقائد وعبادات، رسوم وعادات، معاملات اور آداب واصول سارے امور کے اندر۔
حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے قریب ہی تلوار کے ساتھ میری بعثت ہوئی ہے یہاں تک کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت ہونے لگے، میری روزی نیزے کے سایہ میں رکھی گئی ہے، اور ذلت ورسوائی اس کے لیے ہے جو میرے امر کی مخالفت کرے اور جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہوگا۔” (أحمد وأبوداود۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن اور حافظ عراقی نے صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث کم از کم کافروں کی مشابہت کی حرمت کی متقاضی ہے۔ بظاہر ان کی مشابہت اختیار کرنے والوں کے کفر کا تقاضا کرتی ہے)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے لیس منا من تشبہ بغیرنا۔ وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرے۔” (ترمذی)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بکثرت منقول ہے کہ : “خالفوا المشرکین” “مشرکوں کی مخالفت کرو۔” مجوسیوں کی مخالفت کرو، یہودیوں کی مخالفت کرو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ۔ اور فرمایا:
“من تشبہ بقوم حشر معھم”
“ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرےگا، اس کا حشر بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔”
مشا بہت محبت وموالات کی ایک صورت ہے، جو اس فرمان الہٰی میں داخل ہے۔
( لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَه ) [المجادلة: 22] “اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئےہر گز نہ پائیں گے ۔”
ایمان کاسب سے مضبوط رشتہ:
انسان کے لیے اپنی زندگی میں دوسروں کے ساتھ تعامل اور لوگوں کی ایک دوسرے سے محبت یا تو دنیا کی خاطر یا ملازمت حاصل کرنے کے لیے یا اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کے ساتھ تعامل کے لیے ایک اہم ضابطہ مقررکردیا ہے جس کی وضاحت حدیث میں اس طرح کی گئی ہے: (أن یحب المرء، لایحبہ إلا للہ) “آدمی کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے۔”
ہاں، اے لوگو! اگر ہم اللہ کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے نفرت کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ معاملہ کریں تو کہیں ہم دھوکہ، حسد اور ظلم وزیادتی نہیں دیکھیں: ہم جب دنیا کو اپنے تعلق کی بنیاد بنائيں گے تو جلد گرادبنے والی کھائی کے کنارے پر ہی ہماری بنیاد ہوگی اور خوشحالی وآرام والے دوست کو مصیبت وپریشانی کے وقت دورہی دیکھیں گے ۔
اللہ کے لیے کی جانے والی محبت ہی انسان کو بلند درجہ ومقام تک پہنچاتی ہے۔ اس سلسلے میں حدیث کے اندر بیان ہوا ہے جو سات ایسے لوگوں کے بارے میں وارد ہے جن کو اللہ اپنے سایہ میں اس دن جگہ دے گا، جس دن اللہ کے سایہ کے سواکوئی سایہ نہیں ہوگا: “ورجلان اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ” “اور آپس میں محبت کرنے والے دو ایسے آدمی جو اللہ ہی کے لیے جمع ہوئے اور اسی کے لئے الگ ہوئے۔”
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک آدمی دوسری بستی میں اپنے ایک بھائی سے ملنے نکلا تو اللہ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر کردیا اور جب اس کے پاس سے گزرا تو پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ میں فلاں آدمی سے ملنے جا رہا ہوں۔ پوچھا کہ اس سے رشتہ ہے کیا؟ جواب دیا کہ نہیں۔ پوچھا کہ اس کا کوئی مال ہے، جو اسے دینےجا رہے ہو؟ جواب دیا کہ نہیں پوچھا کہ پھر آخر اس کے پاس کیوں جارہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ: مجھے اللہ کی خاطر اس سے محبت ہے۔ تب اس فرشتے نے کہا کہ میں تمہارے پاس بھیجا گیا اللہ کا فرشتہ ہوں۔ تمہاری اس بھائی سے محبت کے سبب اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ کیاآپ ایسا کوئی آدمی دیکھ کربتا سکتے ہیں، جس نے اس طرح کی محبت کو اپنے معاملے کامعیار بنایا ہو اور پھر اپنے بھائی کے کسی نقصان اورظلم پر راضی ہو، یا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کو تکلیف پہنچائے ۔ حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایمان کا سب سے مضبوط بندھن اللہ ہی کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیےنفرت ہے۔
اور امام احمد وطبرانی نے صحیح سند سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو!سنو جانو اور سمجھو کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جونبی اور شہید نہيں لیکن ان کے درجہ ومقام پر اور اللہ کے نزدیک ان کی قربت کے سبب نبی اور شہید بھی رشک کریں گے۔ یہ سن کرایک دیہاتی نے خود کو گھسیٹ گھسیٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لاکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! غیر نبی اور شہید میں سے کون ایسے مومن لوگ ہیں جن پر انبیاء اور شہد اء بھی رشک کریں گے؟ ان کے بارے میں آپ ہم کو بتایئے۔ اس کے سوال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور فرمایا: مختلف شہروں اور قبیلوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے درمیان کوئی قرابت ورشتہ داری نہیں، مگر اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کی اورآپس میں جڑے، اللہ ان کے لیے نور کے منبر رکھ کر وہاں ان کو بیٹھائےگا، اور ان کے چہروں اور کپڑوں کو بھی نور بنادےگا، اس دن لوگ تو گھبرائے ہوں گے مگر وہ نہیں گھبرائیں گے۔ وہ اللہ کے ولی حضرات ہیں جو نہ خوف زدہ ہوں گے اور نہ مغموم۔