الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين وعلى آله وأصحابه أجمعين، وبعد:
فأعوذبالله من الشيطن الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم۔
( وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ١٠٤ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ١٠٥ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ١٠٦ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ) [آل عمران: 104 - 107]
“تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہ جو بھلاýئی کی طرف لا اور نيک كاموں كا حكم كرے اور برے كاموں سے روكے اور يہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہيں۔ تم ان لوگوں كی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دليلیں آ جانے كے بعد بهی تفرقہ ڈالا اور اختلاف كيا، انہيں لوگوں كے ليے بڑا عذاب ہے۔ جس دن بعض چہرے سفيد ہوں گے اور بعض سياه، جن كے چہرے سياه هوں گے ان سے كہا جا گا كہ كيا تم نے ايمان لانے كے بعد كفر كيا؟ اب اپنے كفر كا عذاب چكهو۔ اور سفيد چہرے والے الله كی رحمت ميں داخل هوں گے اور اس ميں ہميشہ رہيں گے۔ ”
عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع” (مسلم:5)
“عن ابن مسعود الأنصاری رضی اللہ عنہ قال: جاء رجل إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال:إنی أبدع بی فاحملنی فقال: “ما عندی” فقال رجل: یا رسول اللہ ألا أدلہ علی من یحملہ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: “من دل علی خیر” فلہ مثل أجرفاعلہ” (مسلم:5007)
حضرات! آج جمعہ کے خطبہ کے لیے میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے، وہ نہایت ہی حساس اور عصر حاضر کا سلگتا ہوا موضوع ہے۔ نہ صرف یورپ وامریکہ؛ بلکہ دنیا کا پسماندہ سے پسماندہ ملک بھی اس کے چنگل سے باہر نہیں ہے۔ اور سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انسان یا قوم یا ملک ترقی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے،اس کےلیے ناگزیر ہے کہ وہ اس کو لے کرچلے۔ اس کے بغیر اس دور میں ترقی کا تصور اور اپنی بالادستی کا خیال ایک وہم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آج دنیا اس کو میڈیا کے نام سے جانتی ہے۔اخبار، جرائد، مجلے، ماہنامے، ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ وغیرہ اسی تن آور درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔
خیر اور شر کے اعتبار سے ہم میڈیا کو دو خانوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے میڈیا کااستعمال صالح مقاصد کے لیے کیا جائے تو اس کے فوائد اس قدر ہیں کہ گنے نہیں جاسکتے۔ جبکہ برے مقاصد کے لیےاستعمال کیا جائے تودنیا میں اس سے بری چیزاور کیا ہوسکتی ہے!یقینا آج میڈیا کے یہ دونوں دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اور حسب منشا لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
میڈیا کی تقسیم:
دیکھا جائے تو میڈیا کوتین خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے؛
مرئی، جس کا تعلق دیکھنے سے ہو۔ مثلا: ٹیلی ویژن اور وی سی آر وغیرہ۔
سمعی، جس کاتعلق سننے سے ہو۔جیسے: آڈیوکیسٹ، ایم پی3، ریڈیو اور باجے وغیرہ۔
لسانی، جس کا تعلق پڑھنے سے ہو۔ جیسے: اخبار، جرائد، رسالے اور مجلے وغیرہ۔
ان میں سے اوّل الذکر اور ثانی الذکردونوں کو ہم الیکٹرانک میڈیا سے تعبیر کرتے ہیں۔ جبکہ تیسری قسم کو پرنٹ میڈیا کا نام دیا جاتاہے۔
سامعین کرام! آج میڈیا کے ان عناصر کی اہمیت کا کون منکرہو سکتا ہے، اور انسانی زندگی کا کون ساشعبہ ہے، جو ان سے خالی اور الگ تھلگ ہے۔ بلکہ نئی نسل کی زندگی کا آغاز ہی میڈیا سے ہوتاہے۔
آج چاہے مسئلہ حکومت و سیاست کا ہو، چاہے دین کی نشر واشاعت کا ہو، کمپنی، ٹریڈاوربزنس کےفروغ کا معاملہ ہو، جدید تعلیمی وسائل کی فراہمی کی بات ہو، یا کورٹ کچہری کے دنگل کی۔ ہر جگہ اور ہر موڑ پر میڈیا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس مادی دور میں دنیوی معاملات میں منافست کوئی عجیب بات نہیں؛ بلکہ عین تقاضا ہے۔ مگر دین کی نشر واشاعت میں بھی ہر مذہب کے پیروکارجس حد تک آگے نکل چکے ہیں، ہم اس کی گردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نا ممکن اور محال ہو چکا ہے؛ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں ہم یقینا بہت پیچھے ہیں۔ لوگ تحریف شدہ مذاہب، ترمیم شدہ دین دھرموں اور صرف احبارورہبان کے ملفوظات ہی نہیں؛ بلکہ اپنے وضع کردہ اصولوں کو بھی دین کا نام دے کر ، اس کی نشر واشاعت میں جس قدر میڈیا کا استعمال کررہے ہیں، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہیں۔ جبکہ لوگ نہ صرف دنیوی اموربلکہ اپنے دینی امور میں بھی ایک دوسرےپر سبقت لے جانے کی پوری کوشش میں ہیں۔ مگر ہم اب تک خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس تمام آسمانی صحیفوں کا سب سے آخری اور عظیم الشان نسخہ، یعنی رب کریم کا قرآن موجود ہے۔ جبکہ ہمارے پاس پیغمبرِ انسانیت پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات، یعنی احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مایۂ ناز ذخیرہ موجودہے۔ اس کے علاوہ ائمہ ومحدثین اور علماء ومفسرین کے گراں بہا خزانے بھی موجود ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ یہ امت میڈیا کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس قوم کو نہ صرف قوت ارادی وافر مقدار میں ملی ہے؛ بلکہ قوت تحمل بھی کافی مقدار میں اس کے پاس موجود ہے۔ بس ضرورت ہے بیدار ہونے اور ضروریات وتقاضوں کو اچھی طرح سمجھ کر مناسب قدم اٹھانے کی۔ بالخصوص جن کو اللہ نے دین کی دولت کے ساتھ ساتھ، دنیا کی دولت بھی عطا کی ہے، ان اصحاب سیم وزر کی یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔
حضرات گرامی!میڈیا، اس دور کا ایک عجیب وغریب انقلاب ہے۔اوریہ انقلاب ہرایک کی زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسانی زندگی اور معاشرہ کی تشکیل پر اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نازک موڑ پر ار باب فکر وفن اور اصحاب سیم وزر پر، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کے تمام شعبوں اور شاخوں کو، اور اس کے تمام وسائل کو دنیا میں صحیح دین کی صحیح اشاعت اور انسانیت کی رہبری، امن وسلامتی اور سماج کی ترقی اور ہر اچھے کام کے لیے مسخر کرلیا جائے۔ تاکہ نور وظلمت کے تصادم میں شیشۂ ظلمت وضلالت پاش پاش ہو کر رہ جائے۔ حق کی حقانیت کے مقابلہ میں باطل کو اپنی پستیٔ قامت کا نہ صرف احساس ہو؛ بلکہ حق کے سامنے باطل سرنگوں ہوجائے۔ اور دنیا میں کتاب وسنت کی ترویج کے ذریعہ ایک بار پھر امن کا ماحول قائم ہو جائے۔
سامعین کرام!یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ میڈیا کا اٹیک،براہِ راست انسان کے ذہن پر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ زیادہ مؤثر مانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ بڑی آسانی سے کسی فکر کو عام کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ خواہ معاملہ عقائد وعبادات کا ہو، خواہ اخلاق وعادات کا ہو،یا آپسی لین دین کا معاملہ ہو، ہر شعبہ میں میڈیا کا صحیح استعمال ہوسکتاہے ۔ اور اس کوصحیح استعمال کے لائق بنانے کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔
“عن عبد الله بن عمر يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: “كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته، الإمام راع ومسؤول عن رعيته، والرجل راع في أهله، وهو مسؤول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها، ومسؤولة عن رعيتها، والخادم راع في مال سيده، ومسؤول عن رعيته۔” قال وحسبت أن قد قال: “والرجل راع في مال أبيه، ومسؤول عن رعيته، وكلكم راع ومسؤول عن رعيته” (البخاری: 853)
اس حدیث کی روشنی میں تو آپ میں سے ہر کوئی اپنی ما تحتی میں رہنے والوں کا ذمہ دارقرار پاتا ہے۔ اس لیے آپ میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی ماتحتی میں رہنے والوں کو برے راستے سے بچائے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرے۔ اور اس ذمہ داری کے بارے میں قیامت کے میدان میں آپ سے باز پرس ہوگی۔ آپ سے یقینا پوچھا جائےگا کہ میڈیا کے دور میں اصحاب شر نے شر پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور آپ نے اس کے ذریعہ خیر کے پھیلانے میں کیا کوشش کی؟ میڈیا کے اس دہکتے ہوئے انگارے کی لپیٹ میں نہ صرف یہ سماج جھلستا رہا ہے۔ بلکہ آپ کی اولاد بھی اس کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکی(اے اللہ ہماری حفاظت فرما ) ۔
آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے کہ آپ اپنی اولاد کو اس آگ سے بچائیں؟ آج کون انسان ہے، جو اولاد کی تربیت کے بارے میں سرگرداں اور پریشان نہیں ہے؟ ان پریشانیوں کا حل یہ نہیں ہے کہ آپ حقائق سے آنکھیں موند لیجئے۔ آنکھیں موند لینے سے حقیقت چھپ نہیں جاتی۔البتہ انسان کا ضمیر اور احساس ضرور ختم ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے ان حقائق سے نظریں ملا نے کی کوشش کیجئے۔ ان کو دیکھنے سمجھنے اور ان سے مقابلہ کے لیے تیاری کیجئے۔ آپ میڈیا کو ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ کوئی عقلمندی کی بات ہے۔ ہاں عقلمندی کی بات یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد کو، نئی نسل، سماج اور دنیا کو ایک نعم البدل ضرور عطا کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں سے ایمان کش اور زہریلے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، تو آپ ایمان افروزواقعات مرتب کرکے پیش کریں۔ کہیں وجود باری تعالیٰ کی حقانیت پر حملہ ہوتا ہے، تو آپ وجود باری تعا لیٰ اور توحید باری تعالیٰ کی نشانیاں ودلائل پیش کریں۔ کہیں اگر نبوت محمدی پر ضرب لگتی ہے، تو آپ محسن انسانیت کے احسانات کے ذکر وبیان سے میڈیا کو بھر دیجئے۔ کہیں اگر حیاسوزی کا کام ہورہا ہے تو اس کے مقابلہ میں آپ عفت وعصمت کی حفاظت کے وہ نادر نمونے دنیا کے سامنے پیش کیجئے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔ یقیناً میڈیا کو انسانی زندگی سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر میڈیا میں صحیح چیزیں داخل کرکے انسانی زندگی کو پر سکون بنانے کا کام ضرور کیا جاسکتاہے۔ (ألیس منکم رجل رشید)
ہے تم میں کوئی مرد مجاہد، جو اس فکری یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ کیونکہ زمانہ کو اس کی آمد کا شدت سے انتظار ہے۔
گرامی قدر سامعین! آپ میں سے کوئی میڈیا کے کسی بھی شعبے سے جڑا ہوا ہے، تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میڈیا معاشرہ کا آئینہ دار ہوتاہے، اور معاشرہ کا رہبر بھی۔ آج میڈیا کو معاشرہ کی تشکیل میں کلیدی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہزار مخالفتوں کے باوجود بھی لاشعوری طور پر سماج میں وہی تہذیب راہ پا جاتی ہے، جو میڈیا کے ذریعہ پیش کی جاتی ہے۔ آج عمداً وسہواً ہر کوئی میڈیاکا مقلد ہے۔
آج میڈیا کے دور میں بڑی افراتفری کاعالم ہے۔ رائی کو پربت اور ذرہ کو پہاڑ بنانا میڈیا کا اپنا شوق ہے۔ بہت سارے لوگ من گھڑت واقعات کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد اور انجام جو بھی ہو، تاہم سماج اس سے متاثر ضرورہوتاہے۔
“عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه و سلم کفی بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع” (مسلم:5)
“عن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلی الله عليه و سلم بعث معاذا رضي الله عنه إلی اليمن فقال: “أدعهم إلی شهادة أن لا إله إلا الله وأنی رسول الله، فإن هم أطاعو لذلك، فأعلمهم أن الله قد افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعو لذلك فأعلمهم، أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم، تؤخذ من أغنياءهم وترد علی فقرائهم” (البخاری:1395)
اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ دین کی دعوت اور اس کی نشر واشاعت کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا ۔ یعنی انہوں نے وہاں دین کا پیغام پوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو اپنا سفیر بنا کر مدینہ منورہ روانہ کیا۔ عہد صحابہ میں بھی اشاعت دین کے لیے صحابہ کا زمین میں پھیل جانا، ایک عظیم کارنامہ تھا، جس سے اسلام پھیلا۔ آج اس پیغام کو عام کرنے کے لیے ہم کو زیادہ اسفار کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ میڈیا کے استعمال کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کافی حد تک پوری ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اسلام کے لیے میڈیا کے صحیح استعمال کی توفیق بخشے، آمین۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔ بارک اللہ لی ولکم ولسائر المومنین واستغفرہ إنہ ھوالغفور الرحیم۔
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی عبدہ ورسولہ محمد أفضل الرسل وخاتم النبیین، وعلی آلہ وصحبہ ومن اھتدی بھدیہ إلی یوم الدین، أما بعد:
حضرات!ایک طرف تو میڈیا کی اہمیت وضرورت میں کوئی شبہ نہیں ہے، تو وہیں میڈیا میں کام کرنے والوں کی پریشانیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ اب پوری دنیا سے اہل غیرت کا فقدان ہوتا جارہا ہے۔ مگر میڈیا کی دنیا میں تو غیرت مندوں کا وجود ہی عجوبہ ہے۔ عموماً میڈیا میں کام کرنے والے کام کرتے وقت سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ انہیں اپنے پروگرام کی کامیابی اور اپنے مشن کی بہبودی ہی نظر آتی ہے، اور اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے، وہ کر گزرتے ہیں، چاہے اس کا اثر ایمان پر پڑے یا اسلام پر، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواہ اس سے معاشرہ برائی کے دلدل میں پھنس جائے یا نئی نسل برباد ہو جائے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ انہیں تو بس خود چمکنے، اپنے میڈیا کو چمکانے اور دنیا کمانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ کسی کے کام بگڑ نے سے ان کو کیا مطلب! اور ایسے ہی لوگوں کے لیے ہلاکت ہے۔
دوسری بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ میڈیا زر کثیرکا محتاج ہوتاہے۔ جس قدرہم میڈیا میں کام کرنا چاہتے ہیں، اسی قدر اس میں لاگت آئےگی۔
تیسری مصیبت اور پریشانی یہ کہ آج کل میڈیا میں جو پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، وہ عموما ً ان لوگوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں، جنہیں ایمان واسلام اور عقائد واخلاقیات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجائے فائدہ کے اس میں نقصان زیادہ ہوتاہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دنیوی پروگرام پیش کرنے والے بھی اخلاقیات کااہتمام نہیں کرتے ہیں۔ بسااوقات اس فن سے نابلد لوگ بھی اس میں حصہ لے لیتے ہیں، جو یقینا ًکافی ضرررساں ہے۔ لہذاہر فن کے ماہرین کوہی اس فن کے پروگرام کو تیار کرنا چاہئے۔
فاسد پرگراموں کاانسداد ضروری:
آج میڈیا میں جو پرگرام پیش کیے جاتے ہیں، ان کی نگرانی ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس میں ضرر اور زہر پوشیدہ ہوتا ہے، جس سے خصوصا ً بچے اور عورتیں نہیں بچ پاتی ہیں۔ آج کے میڈیا نے تو شرم وحیا کو دنیا سے نیست ونابود کرنے کا عزم مصم کر رکھا ہے۔ اور جب انسان میں حیا ہی باقی نہ بچے، تو اس سے کس خیر کی امید کی جاسکتی ہے؟
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
“إذا لم تستحي فأصنع ماشئت” (سنن ابن ماجہ: 4183، قال الشيخ الألباني: صحيح)
“اگر تمہارے اندر حیا نہیں ہے تو جو چاہو کرو۔”
ایک دوسری روایت ہے:
“قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (الحیاء خیر کلہ) أو قال: الحیاء کلہ خیر” (مسلم: 166)
“حیا میں اول سے آخر تک خیر ہی خیر ہے۔”
بخاری کی ایک روایت ہے:
“عن عمران بن حصين قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: (الحياء لا يأتي إلا بخير” (البخاری:5766)
“حیا ہمیشہ خیر ہی لاتی ہے۔
حتی کہ امام بخاری نے ایک باب کا نام”الحیاء من الإیمان”رکھاہے، یعنی حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔
اور ایک روایت ہے:
“عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه و سلم قال: الحياء شعبة من الإيمان” (سنن نسائی: 5006، علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
“حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔”
الیکٹرانک میڈیا کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ عموماً پروگراموں میں اختلاطِ مرد وزن کو فروغ دیا جا تا ہے۔ بلکہ میاں بیوی کے آپسی تعلقات میں سوائے جماع کے دیگر تمام حرکات کو نشر کرتے ہیں۔ مثلاً بوس وکنار، بغل گیر ہونا، معانقہ وغیرہ وغیرہ۔ ان چیزوں کو بار بار دیکھے جانے سےعموماًکم سنی ہی سے بچوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ بوس وکنار یامعانقہ وغیرہ ایک عام سی بات ہے۔ اور یہ حرکتیں ان بچوں کی زندگی میں لاشعوری طور پر داخل ہو جاتی ہیں۔
ان پروگراموں کے مرتب، اداکاراور ناشر تینوں کو، نہ تو اللہ کا خوف لاحق ہوتاہے، اور نہ ہی سماج کے برباد ہونے اور بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ۔ بلکہ وہ لوگ تو بنی بنائی اسکیم اور منصوبہ بند طریقہ کے تحت یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ تاکہ دنیا اباحیت کی آماجگاہ بن جائے۔ اس لیے حسبِ استطاعت مسلمانوں کے لیے اس کی اصلاح اور اس کا نعم البدل پیش کرنا ضروری ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
( كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ) [آل عمران: 110]
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔"
ضروری وضاحتیں:
حضرات! مسلم ممالک میں جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے، وہاں واجب ہے کہ حکومتی سطح پر میڈیا کا صحیح استعمال کیا جائے، اور غلط دروازوں کو بند کیا جائے۔ اور اسلام کی نشر واشاعت میں میڈیاکا پورا پورا استعمال کیا جائے۔ اِن شاء اللہ اس سے ملک وملت اور قوم ومعاشرہ میں خیر کی راہیں کھلیں گی، اور امن کا ماحول پیدا ہوگا۔ مگر جہاں غیرمسلم حکومتیں برسراقتدار ہیں ، وہاں پر یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں؛ یاتو آمرانہ نظام، یاپھر جمہوریت۔ جمہوری ممالک میں کھلی آزادی ہر شہری کو حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ آمرانہ نظاموں میں کچھ دقتیں تو ہیں؛ مگر حریت فکر وعمل ہر ایک کو حاصل رہتی ہے۔
بہر کیف غیر مسلم ممالک میں حکومت سے تو زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی؛ البتہ وہاں کے افراد انفرادی اور اجتماعی طور پر میڈیا کا صحیح استعمال تو کرہی سکتے ہیں۔ لہذا کہیں بھی فرار کی گنجائش نہیں ہے۔
حسبِ استطاعت میڈیا کے لیے بھی لوگوں کو تین درجے میں رکھا جائےگا۔
“عن أبی سعید قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان” (مسلم:186)
“تم میں جب کوئی منکر چیز دیکھے، تو اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو، تو اپنی زبان سے روکے۔ اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو، تو اپنے دل سے برا جانے۔ اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔ لہذا ہر آدمی اپنے اندرجھانک کر دیکھے، اورحسب استطاعت اس برائی کے سدِّ باب کے لیے کوشش کرے۔”
آخری بات:
اے ایمان والو! اس دن سے ڈرو، جس دن کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہوگا، نہ باپ بیٹے کا ہوگا، نہ ماں بیٹی کی ہوگی، نہ بیوی شوہر کی ہوگی اور نہ شوہر بیوی کا ہوگا۔
اے لوگو! اس دن سے ڈرو، جس دن نہ کوئی راز، راز رہےگا۔ نہ کوئی بھید پوشیدہ اور چھپا ہوگا۔ اس دن یہ دنیا کچھ کام نہ آئےگی؛ بلکہ وہاں تو یہ وبال جان بن جائےگی۔
ارشار باری ہے:
( يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ٣٤ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ٣٥ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ) [عبس: 34 - 36]
“اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔”
اس لیے اے لوگو! اس دن کو یاد کرو جس دن ہر اچھے اور برے عمل کابدلہ دیاجائےگا۔
ارشاد ربانی ہے:
( فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ٧ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ) [الزلزلة: 7 - 8]
“پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لےگا۔ اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لےگا۔”
اے نبی آخری الزماں کے پیروکارو! اس بات کو ضرور یاد رکھو ، کہ جو کسی برائی کا راستہ دکھاتاہے، تو اس دکھانے والے کو بھی اتناہی گناہ ملتاہے، جتناکہ برائی کرنے والے کو ملتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی اچھی راہ دکھاتاہے، تو اس کو بھی اتناہی اجر ملتاہے، جتناکہ اس نیک راہ پر چلنے والے کو ملتا ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
(مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ) (مسلم:5007)
اللہ تعالیٰ ہمیں میڈیا کے ذریعہ لوگوں کی صحیح رہنمائی کی توفیق عطافرمائے، آمین۔