الحمد للہ الذی خلق الأرض والسموات العلیٰ فی ستۃ أیام، وقدر أقواتا وأعمارا لأنام، ومھلھم إلی یوم القیام، والصلوۃ والسلام علی رسولہ محمد وصحبہ الکرام، ومن تبعھما بإحسان إلی یوم بعث الأجساد والأجسام۔
وبعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم:
( إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآَيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ) [آل عمران: 190]
“آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقلمندوں کے ل نشانیاں ہیں۔”
محترم حاضرین جمعہ! یہ نیلگوں آسمان ، یہ وسیع وعریض دھرتی،یہ چمکتا سورج ،یہ چاندنی میں نہایا ہوا چاند ،یہ فضائے بسیط میں ٹمٹما کر اپنے وجود کا احساس دلانے والے یہ ستارے، خلا میں تیرنے والی یہ کہکشائیں ، ہواؤں کے دوش پراُڑان بھرنے والے یہ بادل اور گھٹائیں، یہ اونچے اونچے پربت، یہ بے کراں سمندر ،یہ اپنی دھن میں مگن بہتی چلی جانے والی ندیاں، یہ چمن زار اور یہ بیاباں، یہ چمن کے پھول ،غرض کہ زمین سے آسمان تک، پورب سے پچھم تک اور اتر سے دکھن تک جتنی بھی مخلوقات ہیں اور جتنے بھی ذرات ہیں، سب اسی رب وحدہٗ لاشریک کی تخلیق اور اسی کی نشانیاں ہیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے۔ جس کی محتاج دنیا اور ہرشے اس دنیا کی ہے لیکن وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر شے جس کی نیاز مند ہے لیکن وہ کسی کا نیاز مند نہیں، وہ بےنیاز ہے اور جس کی ہمسری کوئی کرنہیں سکتا، جوبے مثال ہے، بے عیب ہے اور ہر طرح کی تعریف اسے ہی لائق ووزیبا ہے۔ دنیا کی ہر شے اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ وہی تنہا معبود بر حق ہے، اور صرف وہی عبادت کیے جانے کا حق رکھتا ہے، اس کے سوا کوئی نہیں جو کسی بھی طرح کی عبادت کا مستحق ہو۔
سامعین!دنیا میں جتنی بھی مخلوقات ہیں چاہے وہ زمینی ہوں یا آسمانی، بحری ہوں یا بری، فضائی ہوں یا خلائی، اونچے اونچے محلوں میں رہتی ہوں یا پھر تنگ وتاریک آشیانوں میں یا گھونسلوں میں، ساری مخلوقات کی تخلیق کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے رب کائنات کی عبادت وبندگی اور تسبیح وتہلیل اور تحمید وتقدیس کرنا ۔ اور یہ سچ ہے کہ کائنات کی جاندار اور بےجان تمام چیزیں اور مخلوقات رات دن رب کائنات کی تسبیح وتہلیل میں مگن اور مشغول رہتی ہیں یہ اور بات ہے کہ ہم اور آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں اس بات کی گواہی اسی ذات بے عیب نے دی ہے جس نے ان تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
( تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ) [الإسراء: 44]
“ساتوں آسمان اس کی حمد وثنا کے ترانے گاتے ہیں زمین اس کی تعریف وتوصیف کے نغمے گنگنا تی ہے، زمین پر جتنی بھی مخلوقات بودوباش کرتی ہیں، سب اسی کی تسبیح وتحمید کے ساز چھیڑتی ہیں ، کوئی ایسا نہیں ، جو اس کے حمد کے نغمے ،اس کی ثنا اور توصیف کے ترانے نہ گنگنا تا ہو، اور بات یہ ہے کہ تمہیں ان کی تسبیح کی زبان ،ان کی تحمید کا انداز جداگانہ سمجھ میں نہ آتا ہو۔”
مچھلیاں پانی میں اور چرند پرند فضاؤں میں اس کی حمد وکبر یائی کے نغمے گاتے ہیں۔
میرے بھائیو! اگر آپ سے پوچھا جائے کہ یہ حیرت انگیز کارخانۂ عالم اور اس میں پھیلی ہوئی بےشمار مخلوقات خود بخود وجود میں آگئی ہیں تو آپ کہیں گے، ہرگز نہیں، کبھی نہیں۔دنیا کی کوئی چیز اپنے آپ پیدا نہیں ہوسکتی ۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خالق ومالک اور مدبر و منتظم ضرور ہے۔ اور جب یہ قانون دنیا کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز پر لاگو ہوتا ہے تو اتنی عظیم الشان دنیا بغیر خالق کے کیسے وجود میں آسکتی ہے ؟
إن الحمد للہ الذی خلق الأرض والسموات العلی فی ستۃ أیام، وقدر أقواتا وأعمارا لأنام، ومھلھم إلی یوم القیام، والصلوۃ والسلام علی رسولہ محمد وصحبہ الکرام، ومن تبعھما بإحسان إلی یوم بعث الأجساد والأجسام۔
حاضرین جمعہ !یقینا آپ کی بات درست ہے، دنیا کی ہرچیز کا خالق ومالک اور مدبر ومنتظم ایک ذات ہے اور اسی ذات وہستی کا نام ہے اللہ ! لیکن آج کی دنیا میں آپ کو ہزاروں بلکہ کروڑوں لوگ ایسے مل جائيں گے جو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ دنیا یوں ہی اپنے آپ پیدا ہوگئی ہے اور ایک دن اپنے ہی آپ ختم ہوجائے گی، فنا ہوجائےگی اور بس ! یہ ایسی فکر ہے کہ جس سےبڑھ کر بودی اور خسیس فکر ہو ہی نہیں سکتی۔ اس نظریہ اور فکر کا جنم داتا تھا، ایک دماغی خلل والاسائنس دان ڈارون، جس نے دنیا والوں کو پہلی بار یہ بتلا یا کہ ہمارا تمہارا اور ساری دنیا کا خالق کوئی نہیں؛ بلکہ یہ دنیا ارتقا کے نظریہ پر وجود میں آئی ہے۔ اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ انسان بندر سے ترقی کرتے کرتے انسان بنا ہے اور اس کا بھی کوئی خالق ومالک نہیں ۔
بھائیو! ذرا تم بتاؤ، بادلوں کی سرسراہٹ میں کیا ہے؟ پہاڑوں کی خموشی کیا ہے؟گھٹاؤں کی چالوں میں کیا ہے؟سورج کی حدت وتمازت میں کیا ہے؟ چاند کی اس میٹھی میٹھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں کیا ہے ؟ گلستاں کی دلربائی اور پھولوں کی دل کشی اور دلبری میں کیا ہے؟ گردش لیل ونہار میں وہ کون سی چیز پوشیدہ ہے؟ حجر وشجر کی رنگت وصورت میں کیا ہے؟ تنکوں اور ذروں کی تہوں میں کیا ہے ؟ سمندورں اور ندیوں کی لہروں میں کیا ہے؟ اور ذرا یہ بھی تباؤ کہ فضاؤں کی ترنگوں میں کیاہے؟
آؤ میں بتاؤں کہ ان چیزوں میں کیا ہے؟ سنو اور یاد رکھو کہ ان کی ایک ایک ادا میں ایک ایک رنگت وصورت میں نشانی ہے اس رب کائنات کی جوان سب کا خالق ومالک ہے۔ وہی ہے جس نے پھولوں کو ادائے دلبری دی ہے۔ وہی ہے جس نے گلستانوں کو دلکشی ورعنائی دی ہے۔ وہی ہے جس نے پہاڑوں، پربتوں اور سمندورں کو خاموشی کا اعجاز بخشا ہے۔ وہی ہے جس نے صحراؤں اور بیابانوں کو سناٹا دیا ہے تاکہ تم اور ہم اور دنیا کے تمام انسان یہ جان سکیں کہ کوئی ہے جس نے ان مخلوقات کو یہ ادائیں دی ہیں۔ انہیں ان نزاکتوں سے نوازا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ اللہ ہے جس کی ذات پاک ہے۔ جو غیر حادث اور ازلی ہے۔ جسے کبھی زوال نہیں۔ جس کے ہاتھوں میں کل کائنات کا کاروبار اور انتظام ہے۔
( فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ) [المؤمنون: 14]
“برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے اچھا ہے پیدا کرنے والوں میں۔”
حاضرین جمعہ!اگر میں کہوں کہ یہ ساری چیزیں بغیر کسی خالق کے یوں ہی پیدا ہوگئی ہیں تو کیا آپ یقین کرلیں گے؟ اگر میں کہوں کہ فلاں جگہ پر ایک چھوٹا سا مکان خود بخود بن کر کھڑا ہو گیا ہے! (نعوذ باللہ من ذلک) تو کیا آپ یقین کر لیں گے؟ بھلا بتایئے، جب ایک ذرہ بھی انسان سے آج تک نہیں بن سکا، جب اس نے آج تک اپنی تخلیق کےمقصد ومدعا کو نہیں سمجھا، تو بھلا کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟ حالانکہ دنیا کا کوئی بھی سائنس داں آج تک یہ بات ثابت نہ کر سکا کہ دنیا کے نظام میں اتنی ہم آہنگی اورنظم وضبط کیوں اور کیسے ہے؟ اور اگر دنیا بغیر خالق ومالک کے یوں ہی پیداہوگئی ہے تو اس کی ہرچیز اتنی ہم آہنگ اور اس قدر منظم کیسے ہے ؟ اس گتھی کو آج تک انسان نہیں سلجھا پایاہے اور صرف اس لیے نہیں سلجھا پایا کہ وہ خدا کی ذات کے وجود کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اس سوال کا جواب دینا بہت آسان ہے۔ اور وہ ہے کہ دنیا کے نظام میں جو یہ ہم آہنگی اور نظم وضبط ہے تو یہ ایک قادر مطلق کارساز کی کارسازی ہے اور اس کارساز کا نام ہے، اللہ جس کے ہاتھوں میں پوری دنیا کا نظام ہے۔ اور وہی ہے جو دنیا کو اتنی ہم آہنگی اور نظم وضبط کے ساتھ چلارہا ہے۔
سورج آج تک پچھم سے طلوع نہیں ہوا اور آج تک کبھی مشرق میں غروب نہیں ہوا، اس بات کو اے ڈارون کے فرماں بردارو! تم کہتے ہو کہ یہ نظام شمسی کا قانون ہےلیکن ذ را یہ بھی تو بتادو کہ اس نظا م شمسی کا منتظم کون ہے؟
آؤ! میں تمہیں بتادوں کہ نظام شمسی کا منتظم ومدبر ہی تو اللہ ہے !!
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے:
( أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ٣٥ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَا يُوقِنُونَ) [الطور:35 - 36]
“کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود ہی پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں۔”
لہذا دوستو! یہ ثابت ہوگیا کہ اس دنیا کا خالق ومالک اللہ ہے۔ یہ دنیا یوں ہی پیدا نہیں ہوگئی ہے بلکہ اسے رب کائنات نے چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور دنیاکی ہر چیز اسی خالق ومالک کی نشانی ہے:
برسوں فلاسفرکی چنان اور چنیں رہی
لیکن خدا کی ذات جہاں تھی وہی رہی
آئیے ہم اس رب کائنات کے حضور شکر وحمد کے ترانے گائيں جس نے ہمیں اور آپ کو بلکہ ساری دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ ان سب کو ایک الہٰی نظام کے تابع بنایا تاکہ ہرچيز اس دنیا کی اپنا اپنا کام کرے۔
والْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔