islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook


اہل توحید کا مقام ومرتبہ اور اس کی فضیلت


15144
تفصیل
توحید ہی وہ اصلِ عظیم ہے جس پر آسمان وزمین قائم ہیں۔ اسی کے لیے جن وانس کی تخلیق عمل میں آئی اور رسولوں کی بعثت ہوئی اور بندہ جتنا زیادہ توحید اور اخلاص پر قائم رہےگا اور شرک سے دور رہےگا اتنا ہی وہ امن میں ہوگا اور دنیا وآخرت میں ہدایت پر ہوگا۔

فقد قال اللہ تعالی فی القرآن العظیم، أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

( وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ) [النساء: 131]

وقال: ( وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ) [الأنبياء: 25]

“ تجھ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔”

وقال صلی اللہ علیہ وسلم: (حق اللہ علی عبادہ أن یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا، )متفق علیہ من حدیث معاذ بن جبل

حاضرین کرام!فرمان الہٰی ہے:

( وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ) [النساء: 131]

"ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔"

پس اس فر مان باری تعالیٰ پر عمل کےتے ہوئے میں سب سے پہلے خود اپنے کو، پھر آپ حاضرین اور تمام مسلمانوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔

حاضرین کرام!انسان کا دل ایک اہم ترین چیز ہی سے صحیح ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیثوں میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے،اس کو اپنائے بغیر کوئی بھی انسان نجات نہیں پاسکتا، وہ ہے: تو حیدِ باری تعالیٰ، یعنی:صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو خالق ومالک، مدبر و متصرف ماننا، اور عبادت کی ساری قسموں کو صرف اور صرف اسی کے لیے خاص کر دینا، اور سارے نیک اعمال کو صرف اسی کی رضا کی خاطر انجام دینا۔

توحید کی پہلی قسم کو "توحید الربوبیۃ" یعنی پالنہاری میں وحدانیت ،اور دوسری قسم کو "توحید الاُلوہیۃ" یعنی عبادت میں وحدانیت کہتے ہیں۔ توحید کی پہلی قسم کا نہ تو پہلے انبیاء کے دور کے مشرکوں نے انکار کیا تھا،اور نہ ہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مشرکین نے۔ ہاں دونوں ادوار میں خال خال افراد اس کے منکر پائے جاتے تھے۔ بنا بریں اس کے دلائل پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بہت زیادہ زور نہیں دیا ہے، ہاں چند دلیلیں مستقلاً اور کچھ دلیلیں توحید اُلو ہیت کا اقرار کرانے میں ذکر کی ہیں۔

انہی میں سے یہ دلیل بھی ہے ( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آَلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ) [الأنبياء: 22]

”اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔”

اسی کی تعبیر ایک اردو شاعر نے یوں کی ہے:

اگر دوخدا ہوتے سنسارمیں

تو دونوں بلا ہوتے سنسار میں

اس کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک خداکہتا : آج دنیا میں بارش ہوگی ،دوسرا کہتا:نہیں آج بارش نہيں ہوگی۔ اس طرح دنیا کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔

اس دلیل سے دو خد ا ہونے کا بطلان اس طرح ثابت کیا جاتا ہے کہ دونوں ہی کی بات رہ جائے،یہ ممکن ہی نہیں؛ بلکہ محال ہے۔ اسی کو علم اصول میں کہا جاتا ہے: “اجتماع ضدین” محال ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ دونوں میں سے کسی کی بھی بات نہ رہے، تو دونوں عاجز ہو گئے۔اور عاجز ذات الہٰ نہیں ہوسکتی۔اور اگر ایک کی بات رہےاور دوسرے کی نہ رہے، تو جس کی بات رہےگی وہی غالب ہوا، اور دوسرا عاجز، پس غالب ایک ہوا، تو وہی اِلٰہ ہوا۔

آیت میں ارباب کی جگہ “ آلِهَةٌ” جو” اِلٰہ” کی جمع ہے استعمال ہوا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو “اِلٰہ” معبود برحق ہوتا ہے اسی کا حکم چلتا ہے،وہی متصرف اور مدبر ہوتا ہے۔

حافظ صلاح الدین یوسف اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛ یعنی اگر واقعی آسمان وزمین میں دومعبود ہوتےتو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، اور دونوں کا ارادہ اور شعور اور مرضی کار فرما ہوتی ۔اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظم کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا، جو ابتدائے آفرینش سے بغیر کسی ادنی توقف کے قائم چلا آرہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا، دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کی مخالف سمت میں استعمال ہوتے، جس کانتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ اور مشیت کارفرماہے۔ اور جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف اور صرف اس کے حکم پر ہوتا ہے۔اس کے دیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا، اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں ہے ۔

“قرآن نے اس کے علاوہ بھی مشرکین کی زبان سے گواہی درج کی ہے کہ:

( وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ ) [العنكبوت: 61]

“ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ۔”

نیز ارشادِ باری ہے ( قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ) [يونس: 31]

“ آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ۔”

نیز ارشادِ الہٰی ہے:

( قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 84 سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ٨٥ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ٨٦ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ٨٧ قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ٨٨ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ ) [المؤمنون: 84 - 89]

”پوچھئے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو؟۔ فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمان کا اور بہت باعظمت عرش کا رب کون ہے؟ وه لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے؟ پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جو پناه دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناه نہیں دیا جاتا، اگر تم جانتے ہو تو بتلا دو۔ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے، کہہ دیجئے پھر تم کدھر سے جادو کر دیئے جاتے ہو؟”

سورۃ العنکبوت کی آیت رقم 63 میں بھی اسی طرح کا سوال وجواب مذکو رہے:

( وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ) [العنكبوت: 63]

«اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کس نے کیا؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالیٰ نے۔»

یہ اللہ تعالیٰ کی گوا ہی ہے، جوکبھی غلط نہیں ہو سکتی، تو اس سے بڑھ کر اور کیاگواہی ہو گی۔ اس بات کی کہ مشرکین مکہ بھی پروردگاری اورپالنہاری کے کاموں میں صرف اللہ کی وحدانیت کے قائل تھے؟لیکن فی زمانہ یہ بڑی ہی ٹریجڈی ہے کہ آج اللہ کا نام لیوا مسلمان پرور دگار ی اور پا لنہاری کے کاموں میں اللہ کے ساتھ انبیاء اولیاء بلکہ جعلی اور بناؤٹی پیروں اور فقیروں بلکہ پاگلوں بلکہ کتوں کی قبروں سے بھی دھڑلے سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا طالب ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے سوال جواب کے مذکورہ اسلوب کے علاوہ بھی غیر اللہ کی پروردگاری اور پالنہاری کی کھلم کھلا تردید کی ہے۔

ارشاد ہے:

( وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ٢٠ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ) [النحل:20 - 21]

“اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وه خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ مردہ ہیں زنده نہیں، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔”

اسی طرح یہ فر مان باری ہے:

( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آَلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا ) [الفرقان: 3]

“ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وه خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان نفع کا بھی اختیارنہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کا اور نہ دوباره جی اٹھنے کے وه مالک ہیں۔”

حاضرین کرام!نام نہاد مسلمانوں کے علمائے سوعوام الناس کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ارے یہ سب آیتیں مشرکوں کے بتوں کے بارے میں ہیں، ہم تو اللہ کے محبوب بندوں؛انبیاء اور اولیاء اللہ کو پکا رتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ہی نے نفع ونقصان کا اختیار سونپ رکھا ہے۔ تو ایسے شیطان کے ایجنٹوں کا زعم صرف اس ایک بات سے باطل ہو جاتا ہے کہ فتح مکہ کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بتوں کو خانۂ کعبہ سے نکال پھینکے تھے، ان میں حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے بت بھی تھے۔ تو ان جیسے عظیم انبیاء کے مقابلے میں ان چھوٹے موٹے اولیاء اللہ کی کیا حیثیت؟حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پروردگاری اور پالنہاری بلکہ عبادت میں ادنی ٰ سی بھی شرکت(ساجھا) پسند نہیں کرتا۔ اس کی قرآن اور حدیث میں سینکڑوں کھلی کھلی دلیلیں ہیں۔ ذرا اس فرمان ِ الہٰی کو دیکھئے کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی، اپنے بعد سب سے اعلیٰ وافضل ہستی اور اپنے سب سے محبوب ذات گرامی کی زبان مبارک سے کیا کہلوا رہی ہے:

( قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ) [الأعراف: 188]

“آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا۔”

یعنی محمد!آپ کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے نفع ونقصان کابھی مالک نہیں۔ اس بابت صحیح مسلم کی وہ حدیث بھی نظر میں رکھیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے،اور رشتہ داروں،حتی کہ اپنی پیاری بیٹی فاطمہ سے بھی کہا تھا کہ تم لوگ خود کو اللہ سے بچاؤ، کیونکہ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں کروا سکتا۔ (صحیح مسلم حدیث رقم:204)

اللہ اور رسول کی طرف سے ان دونوں واضح فرمانوں کے بعد اب اس بات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ پالنہار ی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاصیت اور خصوصیت ہے۔

حاضرین کرام!مشرکین کے مذکورہ اقرار کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگیں بھی لڑنی پڑیں۔ تو ایسا آخر کیوں ہوا؟اس لئے کہ وہ مشرکین توحید عبادت میں تو حید کے قائل اور اس پر عامل نہیں تھے۔ توحید کی اسی قسم کے اقرار کرانے کے لیے رسالت اور نبوت کاسلسلہ قائم ہوا،اور الہٰی کتابیں نازل کی گئیں۔ نبیوں اور رسولوں کی دعوت کی شروعات اسی توحید کی دعوت سے ہوتی تھی۔

ارشاد باری ہے ( وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ) [الأنبياء: 25]

”تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔”

سورۃ الاَعراف میں متعدد نبیوں کے نام کے ساتھ یہ تذ کرہ ہے کہ ان سب نے اپنی اپنی دعوت کی ابتدا اسی سے کی۔

اسی توحید کے اقرار کرانے،اور اس بابت ذہنوں کی اصلاح کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی کے تیرہ سال صرف کر دیے، یہاں تک کہ اسی توحید سے انکار کے نتیجے میں آپ کو اپنا محبوب وطن مکہ چھوڑنا پڑا۔ نیز مدینہ آ جانے پر بھی اس کی سزا میں مشرکوں نےآپ پر متعدد حملے کیے، جن کو ہم غزوات کے نام سے جانتے ہیں۔ اس توحید کے قرآن میں متعدد عقلی دلائل اللہ تعالی ٰ نے دیے ہیں۔ تو حیدِ ربوبیت کے بارے میں آیتوں کے اخیر میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کتنا معنی خیز ہے، ذرا غور فرمائیے: (فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُون) “آپ ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔” (فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ) “پھر یہ کہاں الٹے جاتے ہیں؟”

قرآن کریم میں اس توحید(توحید عبادت)کے دلائل بے شمار ہیں کیونکہ تمام اقسام توحید میں اصل الاصول یہی توحید ہے،اس بابت ایک مشہور آیت ہے:

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ) [الذاريات: 56]

”میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔”

انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں،اور شرک سے منہ موڑتے ہوئے عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص رکھیں۔

اس توحید سے مراد یہ ہے کہ عبادت (پرستش اور پوجا) کے سارے کاموں کوصرف اللہ کے لیے انجام دیا جائے، اور کسی کو بھی(حتی کہ انبیاء اور اولیاء کو بھی) ان کاموں میں شریک نہ ٹھہرایا جائے۔

عبادت کے لغوی معنی ہیں؛کسی کے سامنے خود کو انتہائی عاجز،خاکسار اور ہیچ ظاہر کیا جائے، خواہ زبان سے ہو یا عمل سے۔ عبادت کے معانی میں؛ نماز، روزہ، حج، زکاۃ، قربانی، نذر ونیاز وغیرہ سارے اعمال کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل امور بھی آتے ہیں کیونکہ ان میں عبادت کا معنی پایا جاتا ہے:

دینے والا صرف اللہ کو ماناجائے اس لیے دعا صرف اسی سے کی جائے، ہر مشکل میں مدد، استعانت اور حاجت روائی اسی سے کی جائے۔

تمام امیدیں اسی سے وابستہ کی جائیں۔

صرف اسی پر توکل کیا جائے۔

صرف اسی کا خوف دل میں رکھا جائے وغیرہ وغیرہ۔

ارشاد باری ہے ( قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) [الأنعام: 162]

”آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔”

نیز ارشاد ہے ( وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ) [الأحقاف: 5]

”اور اس سے بڑھ کر گمراه اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں۔”

غیر اللہ سے دعا کرنے کی ممانعت میں یہ فرمان باری کتنا واضح ہے:

( أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ ) [النمل: 62]

"بے کس کی پکار کو جب کہ وه پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے۔"

اس کے آگے ارشاد ہے: (أَ إلٰهٌ مَعَ اللهِ) “کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہے؟” جو فریاد کو سن سکے۔

نیز یہ ارشاد بھی کتنا واضح ہے: ( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ) [الجن: 18]

”اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔”

اور توکل کے بارے میں ارشاد باری ملاحظہ ہو:

( وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ )[المائدة: 23]

”اور تم اگر مومن ہو تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھو۔”

حاضرین کرام!اس توحید کا دل سے اقرار کر لینے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بےشمار فضیلتیں حاصل ہوں گی۔عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“من مات وھو یعلم أنہ لا إلہ إلا اللہ دخل الجنۃ” (صحیح مسلم حدیث رقم:26)

“جس کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ یہ اقرار کرتاتھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اگر کبیرہ گناہوں کے سبب ایک مدت کےلیے خدا نخواستہ جہنم میں جائےگا بھی تو بالا آخر توحید کے طفیل اس سےنکال لیا جائےگا۔

جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“من مات لا یشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ، ومن مات یشرک باللہ شیئا دخل النار” (صحیح مسلم:93)

“جو اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہیں ٹھہرا تا تھا تو وہ بالآخر جنت میں داخل ہوگا۔اور جو اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کوبھی شریک ٹھہراتا تھا وہ جہنم رسید ہوگا۔توحید الوہیت کی مذکورہ فضیلت اور فائدے کے علاوہ بھی اور بہت سے فضائل وفوائد ہیں جن میں سے بعض کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:

۱۔ آدمی جس قدر توحید میں خالص ہوگا اسی کے بقدر اس سے دنیا اور آخرت میں بلائیں اور پریشانیاں دور ہوں گی۔ ارشاد باری ہے:

( الَّذِينَ آَمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ) [الأنعام: 82]

“جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں۔”

نیز ارشاد ہے:

( لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ) [الأنبياء: 103]

”وه بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکےگی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے، کہ یہی تمہارا وه دن ہے جس کا تم وعده دیئے جاتے رہے۔”

۲۔ قرآن وحدیث میں موحدین کے لیے اور بھی دیگر فضائل وانعامات کا تذکرہ ہے جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، جیسے دنیا ہی میں ان کے لیے جنت کی خوشخبری جس کا تذکرہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک طویل قصے میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ابو ہریرہ میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ، اور تمہیں باغ کے باہر جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اسے جنت کی بشارت دےدو۔" (صحیح مسلم حدیث رقم: 31)

اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو مسلمان فوت ہو جائے پھر اس کی نماز جنازہ میں چالیس افراد شرکت کریں جنہوں نے کبھی اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو اللہ تعا لیٰ اس کے حق میں ان کی شفاعت قبول کر لیتا ہے" (صحیح مسلم حدیث رقم:948)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن سب سے خوش نصیب وہ کون آدمی ہوگا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے؟تو آپ نے جواب دیا: قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کونصیب ہوگی جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ "لا إله إلا الله" کہا ہو۔" (صحیح بخاری رقم: 99، و 6570)

سامعین کرام!توحید کے بیان میں اس کی مذکورہ دونوں قسموں؛ توحیدِ ربو بیت اور توحیدِ اُلوہیت کے علاوہ توحید کی ایک اورقسم سے واقفیت بھی ضروری ہے، اور وہ ہے توحید اسماء وصفات باری تعالیٰ۔ اس تو حید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنی ذاتی وفعلی صفات کے بارے میں جو بھی الفاظ استعمال کیے ہیں ان پر ایمان لایاجائے۔ نہ تو ان کا انکار کیا جائے جیسا کہ ایک گمراہ فرقہ معطلہ کرتا ہےاور نہ ہی ان کو اس طرح مانا جائے کہ ان اسماء وصفات میں خالق اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیا ن مشابہت لازم آجائے،جیسا کہ ایک گمراہ فرقہ مجسمہ ومشبہ کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان سلف صالحین صحابہ وتابعین اور اتباع تابعین کا معتدل عقیدہ یہ ہے کہ ان سب اسماء وصفات پر جو قرآن اور حدیث میں اللہ کے لیے آئے ہیں ان کو اللہ کے لیے ان کے ظاہر معنی کے لحاظ سے ہی ثابت ماناجائے۔ البتہ ان کی کیفیت کو اللہ کے حوالہ کردیا جائے کہ ہمیں ان کی کیفیت نہیں معلوم۔ اس سلسلے میں سب سے بنیادی آیت ہے:

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) [الشورى: 11]

”اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے والا ہے۔”

اس آیت میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سے مشابہت کی نفی کی ہے، وہیں اپنے لیے” سمیع اور بصیر”کی صفت ثابت کی ہے۔ جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی طرح کی صفات بندوں کے لیے استعمال کیے ہیں۔ یعنی؛ اللہ کے لیے صفات تو ہیں۔ مگر بندوں کی صفات کی طرح نہیں ۔

اسماء وصفات باری تعالی ٰ کے سلسلے میں سلف صالحین کے موقف کی وضاحت امام مالک نے اس طرح کی ہے:

“الاستواء معلوم والکیف مجھول، والإیمان بہ واجب، والسؤال عنہ بدعۃ “

“ استواء کا معنی معلوم ہے۔ یہ “الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى” کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن استواء کی کیفیت معلوم نہیں۔ اور اس پر ایمان واجب ہے اور اس کے متعلق سوال بھی بدعت ہے۔”

ان اسماء وصفات میں سے اللہ کے وہ صفاتی نام ہیں جن کا تذکرہ اللہ نے سورۂ الشوری کی آیت:23، سورۂ الاسراء کی آیت:110 سورۂ طہ کی آیت:8 اور سورۂ الأعراف کی آیت:180 میں کیا ہے، ان کو الأسماء الحسنیٰ سے تعبیر کیا ہے۔ اور ان کے ذریعہ دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اور ان میں الحاد کرنے سے منع کیا ہے۔ اسماء میں الحاد سے مراد یہی ہے کہ نہ تو ان کو معطل کیا جائےاور نہ ہی ان میں مخلوق سے مشابہت دی جا ئے۔

ان اسماء وصفات کے جو ظاہری معنی ومطلب بیان کیے گئے ہیں قرآن کے اولین مخاطب صحابہ، اور بزبان رسالت مآب صحابہ کی طرح دین کی سمجھ میں معتبر تابعین واتباع تابعین نے یہی معنی ومطلب بیان کیے ہیں۔ اس لیے ان کے معنی ومطلب یہودونصاری کے دم چھلے فلاسفہ ومتکلمین، معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہم پردھیان نہ دیا جائے۔

اور اخیر میں دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ سلف صالحین کے ایمان وعقیدہ پر فرمائے اور قیامت کے دن ہمارا حشر ونشر انہیں کے ساتھ ہو۔ “وحسن أولئک رفیقا”۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔ أما بعد: فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم:

( إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ) [النساء: 116] وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

(من مات یشرک باللہ دخل النار) (صحیح مسلم حدیث رقم:93)

حاضرین کرام!توحید میں، جس کا بیان خطبۂ اولی میں ہوا ، خلل ڈالنے والے بہت سے امور ہیں جن میں سے ایک لفظ"شرک" ہے، شرک توحید کی نقیض ہے، اور ایسا گنا ہ ہے جس کے مرتکب انسان کی کھبی بھی بخشائش نہیں ہوگی۔

جیسا کہ سورۂ النساء میں اللہ تعالیٰ کا حتمی اعلان ہے:

( إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ) [النساء: 116]

"اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک ٹھہرایا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔"

بنابریں ہر طرح کے شرک سے بچتے رہنا بہت ضروری ہے ۔

حضرین کرام!شرک کی دو قسمیں ہیں:ایک شرک اکبر، دوسری شرک اصغر،شرک اکبر انسان کو ایمان واسلام سے خارج کردیتا ہے اور اگر انسان بغیر توبہ کے مر جائے تو اس کی بخشائش کسی قیمت پر نہیں ہو گی جیسا کہ اللہ کا اعلان ہے۔

توحیدِ ربوبیت میں شرک اکبر یہ ہے کہ اللہ کے سوا بھی کسی ذات کو نفع ونقصان کے معاملات میں مالک ومتصرف مانا جائے، اس سے حاجت روائی طلب کی جائے، اس سے دعا کی جائے، دعا تو توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اُلوہیت ہر دو قسم کی توحید کو جامع ہے۔ اور کسی ہستی سے ماورائے اسباب دعا دونوں توحید میں نقص ہے یعنی شرک اکبر ہے۔ بلکہ اکبر ترین شر ک ہے ۔

اور توحیدِ اُلوہیت میں شرک اکبر یہ ہے کہ عبادت کے کسی بھی کام میں غیر کو شریک کرلیا جائے،جیسے مزاروں پر سجدہ کیا جائے، مزاروں کا طواف کیا جائے،غیر اللہ کے لیے نذر ونیاز پیش کیا جائے،غیر اللہ کے نام پر قربانی کی جائے، تعویذ گنڈے لٹکائے جائیں، اللہ کے بندوں سے منتیں مانگی جائیں وغیرہ وغیرہ۔

شرکِ اکبر کی قسموں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا، دوسروں کی حلال کردہ چیزوں اور کاموں کو حلال مانا جائے،اور دوسروں کے حرام کردہ چیزوں اور کاموں کو حرام ماناجائے۔ جس کی طرف عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اشارہ ہے کہ جب یہ آیت اتری:

( اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ) [التوبة: 31]

“ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا۔”

یعنی اہل کتاب نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے سوا رب بنا رکھا تھا تو عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نےعرض کیا:ہم نے ان کو رب نہیں بنا یا تھا، نہ ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “کیا ایسا نہیں تھا کہ جو چیز وہ حلال قرار دیتے تھے اہل کتاب کے عوام ان کو حلال مان لیتے تھے، اورجو چیز وہ حرام قرار دیتے تھے اس کو وہ حرام مان لیتے تھے؟تو یہی ان کو رب ماننا اور ان کی عبادت کرنا ہے۔” (رواہ الترمذی وحسنہ الألبانی)

شرک اکبر کی قسموں میں سے ایک قسم غیر اللہ سے اللہ کی طرح محبت کرنا بھی ہے۔

ارشاد باری ہے:

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ) [البقرة: 165]

"بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔"

اور شرک اصغر بھی گرچہ شرک کے زمرے میں آتا ہے؛ مگر یہ انسان کو ملتِ اسلام سے خارج نہیں کرتا، اس شرک کا اطلاق خاص طور پر ریا پر ہو تا ہے۔

ارشاد نبوی ہے :

“إن أخوف ما أخاف علی أمتی الشرک الأصغر، قالوا: وما الشرک الأصغر یا رسول اللہ! قال: الریاء” (مسند أحمد: 5/428، 429/ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ رقم: 951)

“مجھے اپنی امت کے سب سے زیادہ شرک اصغر میں مبتلا ہونے کا ڈرہے۔ لوگوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے؟فرمایا:ریا۔ اس لیے شرک اصغر بھی خطر ناک ہے کہ اس کا مرتکب شرک اکبر تک پہنچ جاتا ہے، اس لیے اس سے ہمہ وقت چوکنا رہنا چاہے۔ شرکِ اصغر کی اور قسموں سے وقت کی تنگ دامانی کے سبب صرف نظر کیا جاتا ہے۔

اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مکمل توحید اور حقیقی توحید کو سمجھنے کی توفیق دے، اور تاحیات شرک کے شائبہ تک سے بچاتا رہے، اور جن کو بچایا ہے انہی کے عقیدے اور منہج پر ہمارا خاتمہ کرے، اور قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہمارا حشر ونشر کرے۔ “وحسن أولئک رفیقا”۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔