islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook


تقویٰ اور بندے کی زندی پر اس کا اثر


26533
تفصیل
اللہ نے تمام اولین وآخرین کو تقویٰ کی وصیت کی ہے۔ یہی انبیاء کی دعوت اور اولیاء کا شعار ہے ۔ تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے اور ان چیزوں کے درمیان جس سے وہ ڈرتا ہے ایک ڈھال بنالے۔ تو متقی وہ شخص ہے جو اپنے اور اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کے درمیان اطاعت کا ایک مضبوط قلعہ تعمیر کر لے۔تو تم اسے بری چیزوں سے بچنے اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا پاؤگے۔ یہی شخص پر امن اور نیک بخت زندگی گذارےگا اور آخرت میں بلند اور عالیشان مرتبہ

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله: أما بعد !

تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ اگر انسان بڑاہی دولت مند اور حیثیت ووقار کا مالک ہے لیکن وہ “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان وشوکت کسی کام کی نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل میں تقوی کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خداترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اللہ کی نظر میں قابل احترام نہیں، حقیقت تویہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں ۔

برادران اسلام!ایسا کیوں؟ ایسا اس لىے کہ اگر مسلمان ایک جسم ہے تو تقویٰ اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہاجائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر لاشۂ بےجان ہے تو اس میں ذرابھی مبالغہ آرائی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء ورسل آئے، جتنے بھی مجددین ومصلحین آئے، سب نے تمام انسانوں کو تقویٰ کی جوت سے اپنی زندگی کا گوشہ گوشہ منور کرنے کا حکم دیا۔ قرآن پاک میں رب کائنات نے بے شمار جگہوں پر اس کی تاکید کی ہےاوراحادیث نبویہ میں بھی تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت جا بجادی گئی ہے۔

دوستواور بزرگو! جس طرح سمندر پانی کے بغیر سمندر نہیں رہ سکتا، بیابان میں تبدیل ہوجاتا ہے، اسی طرح جس دل میں تقوی کا گلشن نہ سجاہو، وہ دل ویران ہو جاتا ہے، اور وہ شیطان کی آماجگاہ اور برائیوں کا مسکن بن جاتا ہے۔

لہذاآئیے، ہم قرآن وحدیث اورآثار صحابہ کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ تقوی ٰہے کیا چيز اور اس کے فضائل کیا ہیں؟

سامعین کرام ! تقویٰ کے لغوی معنی بچنے اور حفاظت کرنے کے ہیں اور دینی اصطلاح کی روسے طاعت کے کاموں میں اخلاص اور معصیت کے تمام کاموں سے احتراز وپرہیز کرنے کا نام ہے تقویٰ۔ (التعریفات:65)

ویسے کلام پاک کے اندر تقوی پانچ معانی میں استعمال ہواہے:

خوف وخشیت الہٰی:

ارشاد ربانی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ) [الحج: 1]

“لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلا شبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے۔”

عبادت:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ) [النحل: 2]

“وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاھتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔”

معاصی اور گناہ سے اجتناب:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) [البقرة: 189]

“لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیج کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے ل ہے،(احرام کی حالت میں) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

توحید:

ارشاد خداوندی ہے:

( إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ) [الحجرات: 3]

“ بے شک جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے ل جانچ لیا ہے۔ ان کے ل مغفرت اور بڑا ثواب ہے۔”

اخلاص عمل اور اخلاص نیت:

رب کریم کا ارشاد ہے:

( ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ) [الحج: 32]

"یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔"

بزرگان دین وملت! تقوی کے ان پانچوں معانی پر اور ان معانی پر پیش کی گئی آیات قرآنیہ پر ذرا غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دراصل انسان اس لیے مسلمان بنتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کرے کیوں کہ جو توحید اختیار نہیں کرتا بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود قبروں اور مزاروں پر جاجا کر ماتھا ٹیکتا رہتا ہے، وہ مشرکین کے زمرے سے نکل نہیں پاتا۔ جو اللہ کی عبادت بجا نہیں لاتا، وہ اللہ کی نظر میں سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن صحیح مسلمان نہیں ہوسکتا، جو معاصی سے، گناہوں سے اور گناہ کے کاموں سے اجتناب نہیں کرتا وہ اللہ کے وعدۂ جنت کا مستحق نہیں بن پاتا، جو اپنے اعمال میں اخلاص نیت کو بروئے کار نہیں لاتا اور جس کا دل خوف خداوندی اور خشیت الہٰی سے لرزاں اورترساں نہیں رہتا، وہ ہمیشہ شیطان کے نرغے میں رہتا ہے ۔ گویا تقوی ہی سے انسان مسلمان رہ جاتا ہے ورنہ دائرۂ دین وشریعت سے اس کے خارج ہو جانے کا خدشہ ہمہ وقت لگا ہی رہتا ہے۔

دوستان گرامی!ایک آدمی صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتا ہے:اے صحابی رسول!ذرا مجھے بتا دیجئے کہ یہ تقویٰ کیا ہے ؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے پوچھتے ہیں :کیا تم کبھی ایسی راہ سے گذرے ہو جس کے دونوں طرف کانٹےدار جھاڑیاں ہوں۔

وہ آدمی کہتا ہے : ہاں اے صحابی رسول ! ایسا اتفاق تو بارہا ہوا ہے ۔ پھر تم کیسے اس راہ سے گذرے ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔ وہ آدمی کہتا ہے : اپنا دامن سمیٹتے، اپنے آپ کو کانٹوں کی چبھن سے بچتے بچاتے بےحد ہشیاری سے قدم بڑھاتے ہوئے ، ڈرتے ڈرتے گذر جاتا ہوں۔

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:یہی تو تقویٰ ہے۔ (الدرالمنثور:1/61)

عزیزان ملت بیضاء!معلوم یہ ہوا کہ یہ دنیا برائیوں سے بھری پڑی ہے، ہر جگہ حرام اور شیطانی کاموں کے اڈے کھلے ہو ئے ہیں ، ہر موڑ پر شیطان اپنی چال کے پتے لیے بیٹھا ہے، ہر قدم پر شیطان کے کارندے اور دین وایمان کے راہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ نے ان شیطانی ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ لیا، معاصی سے اجتناب کیا اور جہاں تک بن پڑا اطاعت خدا اوراطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہوئے اپنی حیات مستعار گذارلی تو یقینا یہی حیات تقویٰ شعاری کہلائےگی۔

فضائل تقویٰ:

بتاؤں تقویٰ کیا ہے؟ تقوی حق وباطل کے درمیان فرق وتمیز کرنے والی شے ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فر مان باری ہے:

( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ) [المائدة: 27]

“اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔”

ارشاد ہے:

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) [الحجرات: 13]

“اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔”

ربِّ کائنات کا وعدہ ہے:

( وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) [الزمر: 61]

“اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وه کسی طرح غمگین ہوں گے۔”

تقویٰ جنت کا ٹکٹ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا ) [مريم: 63]

“یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں۔”

دوستو!آج ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی، ہر طرف دہشت وخوف کا ماحول ہے، غبن اور کرپشن عالمی منظر نامہ بن چکا ہے۔ برائیاں فروغ پارہی ہیں اور ان کی سرپرستی حکومتیں کررہی ہے۔ پوری دنیا ابلیسی نظام حیات کے تار عنکبوت میں پھنستی جارہی ہے۔ بحر وبر اور آسمان وزمین فساد وبگاڑ کے شکنجے میں ہیں۔ لاکھ لاکھ تدبیریں ہورہی ہیں ان سب برائیوں کو دور کرنے کی۔ ہزاروں علاج سوچے جارہے ہیں اس بیماری کے لیے۔ لیکن دنیا والو! سن لو اور یاد رکھو کہ جب تک تمام لوگوں کے اندر تقویٰ کی جوت نہیں جگائی جائےگی یہ کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ جب تک خداترسی کا فروغ واشاعت نہیں ہوگا، تب تک تمہاری کوئی تدبیر کام نہیں آئےگی۔ گھوٹالے ہوتے رہیں گے۔ حقوق تلف ہوتے رہیں گے۔غبن کا سامراج پھیلتا چلا جائےگا اور ایک دن ایسا آجائےگا جب تمہاری دنیا تباہ وبرباد ہو جائے گی اور تمہیں حسرت ویاس اور قنوطیت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔ لہذا آؤ، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے ہر کام میں خداترسی کا جلوہ دکھاؤ۔ تمہاری ہر بات بنےگی اور یہ دنیا تمہاری غلام ہوگی۔ اللہ کرے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ کی روشنی جگمگا اٹھے کہ یہی سب سے قیمتی اور بیش بہا متاع حیات ہے !!

دوسراخطبہ:

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله: أما بعد !

سرفروشانِ ملت !پہلے خطبہ کے دوران ہم نے آپ کو بتایا کہ تقویٰ کیا ہے، تقویٰ کے معانی ومفا ہیم کیا ہیں ؟ تقویٰ قرآن میں کتنے معانی میں استعمال کیا گیا ہے اور بتایا کہ تقوی کے فضائل کیا ہیں اور اورتقویٰ وخداترسی کی راہ سے ہٹ جانے سے انسانیت کن برائیوں اور ہلاکتوں میں مبتلا ہوسکتی اور مبتلا ہے۔ خطبۂ جمعہ کے اس دوسرے حصے میں ہم یہ بتا نے کی کوشش کریں گے کہ اہل تقویٰ کی خصوصیات، ان کے امتیازات اور ان کی خوبیاں کیا کیا ہیں؟ یہ بالفاظ دیگر تقوی ٰ کا معیاراورکسوٹی کیا ہے ؟

دوستو! پہلی بات ہے یہ ہے کہ تقویٰ اور پرہیز گاری یا خداترسی کا پہلا زینہ ہے چھ باتوں پر صدق دل سے ایمان لے آنا۔ رب کائنات نے قرآن کریم کی دوسری سورہ یعنی سورۃ البقرۃ کی دوسری آیت سے لے کر پانچویں آیت تک کے اندر اس بات کی واضح نشاندہی فرمادی ہے۔

وہ فرماتا ہے:

(الم ١ ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ٢ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ٣ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ٤ أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) [البقرة:1 - 5]

“الم۔ اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راه دکھانے والی ہے۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے (مال) میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور وه آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔”

ثابت ہوا کہ غیب پر ایمان لانے، نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، قرآن کریم پر اور قرآن کریم سے پہلے نازل ہونے والی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانے اور وقوع قیامت یعنی حیات آخرت پر ایمان لانے اور اس پر یقین کرنے سے تقویٰ کا پہلا زینہ طے ہوتا ہے ۔ یہ وہ چیزیں ہیں یا وہ صفات ہیں جو ایک انسان کو گمراہی کی دلدل سے نکال کر ایمان ویقین کی شاہراہ پر ڈالتی ہیں۔ گویا تقویٰ کا سفر انہی چھ زاد ہائے سفر کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ تقویٰ کادوسرا نام ہے ایفائےعہد، رب کریم اپنے قرآن کریم میں ارشاد فرماتا:

( وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ) [البقرة: 177]

“حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے کہ جب وہ وعده کرے تو اسے پورا کرے۔”

رب کریم فرماتا ہے کہ میرے تقویٰ شعار بندے وہ ہیں جو وعدے کرتے ہیں تو انہیں پورا بھی کرتےہیں ۔ وہ جھوٹے وعدے نہیں کرتے اور جب وعدے کرتے ہیں تو ان کو پورا کرنے کی راہ میں اپنی جان تک لٹا دینے میں دریغ نہیں کرتے ۔

تقویٰ شعاری کی تیسری علامت ہے مصائب وآلام پر صبر کرنا ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ) [البقرة: 177]

“حقیقتاً تقویٰ شعار وہ ہے جو تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے۔”

مطلب یہ کہ تقویٰ شعار بندے وہ ہیں کہ جب ان پر مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو وہ واویلا نہیں مچاتے، جزع فزع نہیں کرتے، اپنے رب اور اپنے دین وایمان کے بارے میں شک وشبہ میں نہیں پڑتے بلکہ چپ چاپ صبر کرتے ہیں، تمام آلام ومصائب کا سامنا خندہ پیشانی سے کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور رات کی تنہائی میں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب!ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا آقا ہے لہذا کا فروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ: 286)

تقوی شعاری کی چوتھی علامت ونشانی یہ ہے کہ جو لوگ تقوی اور خداترسی کے خوگر ہوتے ہیں وہ گناہ ہو یا نہ ہو، اپنے رب سے برابر استغفار کرتے رہتے ہیں۔ رب کریم ایسے ہی لوگوں کی نشاندہی کرتے ہو ئے فرماتا ہے:

( وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ) [آل عمران: 135]

" اور جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جا یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے ل استغفار کرتے ہیں،فی الواقع اللہ کے سوا کون گناھوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔"

برادران ملت اسلامیہ! تقویٰ اور خداترسی کی یہ صفات اور خوبیاں اللہ کے جن بندوں کے اندر ہوں گی، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی بشا رتیں نازل فرمائی ہیں ۔ قرآن کریم کی تقویٰ اور خداترسی پر مشتمل تمام آیات کریمہ کا دراسہ ومطالعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ تقوی ٰ اختیار کرتے ہیں ، ان کو اللہ تعالی ٰاپنی نصرت وتائید ، عزت وجلال اور علم وحکمت سے نوازتا ہے ۔ گناہوں کو مٹاتا اور اجر عظیم کا مستحق قرار دیتا ہے ۔ مغفرت جو انسان کی آخری منزل ہے، حاصل ہوتی ہے۔ دین اور دنیا کے تمام معا ملات آسان ہو جاتے ہیں غم وآلام سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے ۔ دنیا میں کشادہ زندگی اور آخرت میں عقوبت الہیہ سے نجات ملتی ہے۔ کمال عبودیت حاصل ہوتا ہے اور تقرب الہٰی کا حصول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی کو تقویٰ اور خداترسی کی نذر کردیا، صحابہ کرام نے اسے اپنایا اور اسلاف کرام نے اسی کی پتوار اپنی زندگی کی ناؤ میں لگائی اور بحر زیست کو پارکیا ۔ آئیےچند احادیث کریمہ ملا حظہ فرمائیے جس سے یہ اندازہ ہو کہ ایک مومن کی زندگی میں تقویٰ اور پر ہیز گاری کی کیا اہمیت ہے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلمم نے فرمایا : تم سب لوگ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ (بخاری مع الفتح: 3/1417، ومسلم حدیث نمبر: 1016)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“أوصیک بتقوی اللہ فإنہ راس کل شئ” (مسند أحمد: 3/82، مجمع الزوائد: 4/215)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرائےگا۔ اس کےجواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تقویٰ اور حسن اخلاق۔ (ترمذی: 616)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إن اللہ لا ینظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم وأعمالکم” (مسلم: 2564)

“بےشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”

معلو م یہ ہوا کہ رب کا ئنات چاہتا ہے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں ورنہ ہمارے اعمال اور مال ودولت کچھ کام نہیں آئیں گے۔ حسرت ویاس کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا، رب کی رضاء وخوشنودی ہم سے دور چلی جائے گی اور ہم ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔

دوستو! لیکن جب ہم آج کے مسلمانوں کے احوال دین کا جائزہ لیتے ہیں تو تقویٰ اور خدا ترسی کی نشانی ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ہر طرف گناہوں کی ظلمت چھائی ہوئی ہے کوئی مسلمان اگر اعمال صالحہ انجام بھی دیتا ہے تو ان سے اس کا مقصد ریاء ونمود کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، ہر انسان شہرت وناموری کا بھوکا نظر آتا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ ابھی ابھی آپ کے سامنے قرآنی آیات واحادیث سے ثابت کیا گيا کہ اللہ کو نہ کسی کے اعمال کے ضرورت ہے اور نہ اسے اس بات کی ضروت ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرتا ہےیا نہیں کرتا، حقیقت میں اس نے عبادتوں اور فرائض کا جو سلسلہ دنیا کے لوگوں کے لیے باندھا ہے، وہ صرف اس لیے ہے کہ وہ دیکھے کہ کون اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اور کون خداترسی سے دور اور شیطانی نظام حیات سے قریب ہوتا ہے۔

آئیے اللہ سے دعاء کریں کہ وہ ہمیں تقویٰ اختیار کرنے اور پاکبازی کی زندگی گذارنے کی توفیق دے اور شیطان کا آلۂ کار بننے سے ہمیں بچائے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔