islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook


صبر کی ترغیب


13265
تفصیل

إن الحمد لله، نحمده, ونستعينه, ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،

وقد قال اللہ تبارک وتعالی فی محکم تنزیلہ، أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا ) [آل عمران: 200]

“ اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو۔”

وقال: ( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [الزمر: 10]

“صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے۔”

وقال: ( وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ) [الشورى: 43]

”اور جو شخص صبر کر لے اور معاف کردے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام) ہے۔”

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں 9 مقامات پر صبر کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صبر کی اور صبر کرنے والوں کی اللہ کی نظر میں کیا وقعت واہمیت ہے ۔

آئیے، ہم آپ کو بتائيں کہ اللہ کی نظر میں صبر کیا ہے۔ اور اس کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے۔

صبر کے لغوی معنی روکنے کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں مصیبت کے وقت گھبراہٹ ونا گواری سے روکنے اور زبان پر حرف شکایت نہ لانے اور اعضائے جسم کو پرسکون رکھنے مثلا: گالوں پر مارنے، سینہ کوبی کرنے اور گریبان پھاڑنے جیسے امور سے نفس کو روکے رکھنے کا نام صبر ہے، صبر کی تعریف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صبر نفس کے خصائل میں سے ایک ایسی خصلت کا نام ہے جس کی وجہ سےوہ ہر اس کام سے بازرہتا ہے جو غیر مستحسن اور قبیح ہو گویا یہ نفس کی قوتوں میں سے ایسی قوت ہے جو اسے صلاح ودرستگی پر قائم رکھتی ہے۔

جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں پو چھا گيا تو انہوں نے کہا بغیر منہ بنائے اور ناگواری کا اظہار کیے کڑوے گھونٹ کو حلق سے نیچے اتار لینے کا نام صبر ہے۔

ذو النون مصری کا قول ہے: مخالفت سے بچنے اور مصیبت کو خندہ پیشانی کے ساتھ جھیل لینے اور اپنے آپ کو ایسے موقعوں پر پُر سکون رکھنے اور فقر کی حالت میں بھی تو نگری کے اظہار کا نام صبر ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ حسن ادب کے ساتھ مصیبت کو برداشت کر لینے کا نام صبر ہے۔

ایک بزرگ نے کسی شخص کو اپنے کسی بھائی سے شکایت کرتے دیکھا تو اس سے کہا کہ اے فلاں تو ایک ایسی ذات کی جو تجھ پر انتہا ئی رحیم ومہربان ہے ایک ایسے شخص سے شکایت کررہا ہے جو تجھ پر بھی رحم نہیں کرتا۔

میرے بھائیو! صبر ایک ایسا گھو ڑا ہے جو ہمیشہ تازہ دم رہتا ہے وہ کبھی تھکتا نہیں۔ صبر ایک ایسی تلوار ہے جو کبھی کند نہیں ہوتی۔ وہ ایک ایسا لشکر ہے جو ہمیشہ فتح یاب رہتا ہے کبھی شکست نہیں کھاتا۔ وہ ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جسے دشمن کبھی ڈھا نہیں سکتا۔ صبر اور فتح ونصرت دونوں حقیقی بھائی کے مانند ہیں جو شخص صبر کے ہتھیار سے لیس ہوتا ہے اسے دشمن کبھی شکست نہیں دے سکتا۔ اس کے بر خلاف جو شخص صبر کی قوت سے عاری ہو وہ کبھی فتح ونصرت سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا ) [آل عمران: 200]

”اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔”

مومن کی رسی ہمیشہ صبر کے میخ میں بندھی رہتی ہے، وہ گھوم پھر کر رسی کی طرف واپس ہوتا ہے۔ صبر ایمان کے درخت کا تنا ہے اسی پر ایمان کھڑا اورقائم رہتا ہے۔ اسی وجہ سے جس کے پاس صبر نہیں ہوتا اس کے پاس ایمان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(و ما اعطی احد عطاء خیرا و أوسع من الصبر)

“کوئی شخص ایسا عطیہ نہیں دیا گیا ہے جو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر ہو۔”

جو لوگ صبر سے عاری ہوتے ہیں ان کے پاس اگر ایمان ہوتا بھی ہے تو وہ حددرجہ کمزور ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر کھڑ ے ہو کر کرتے ہیں۔ اگر انہیں اس سے کوئی نفع پہنچتا ہے تو اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور اگر کوئی آفت آ جاتی ہے تو وہ اسی وقت عبادت سے اپنا منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہی لوگ دنیا اورآخرت دونوں میں ٹوٹے اور خسارے میں رہتے ہیں۔ خوشگوار زندگی صبر ہی کے صلے میں ملتی ہے۔ جو ان نیک بختوں کے حصے میں آتی ہے جو صبر کے ہتھیار سے مسلح ہوتے ہیں۔ یہی لوگ صبر اور شکر کے پروں سے اڑ کر جنت میں داخل ہوں گے۔

( ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) [الحديد: 21]

“یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔”

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صبر کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور انہیں بےحساب اجر سے نوازے جانے کی بشارت دی ہے۔

ارشاد باری ہے:

( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [الزمر: 10]

"صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا اجر بلاحساب دیا جاتا ہے۔"

ایسے لوگوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے یعنی اللہ کی ہدایت ونصرت ان کے ساتھ ہوتی ہے۔

ارشاد باری ہے:

( وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ) [الأنفال: 46] "اور صبر کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"

صبر کرنے والوں کو یہ معیت دنیا اور آخرت دونوں میں ملتی ہے اسی وجہ سے وہ ہر قسم کی ظاہری وباطنی نعمتوں سے مالامال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دین کی امامت کو صبر ویقین کے ساتھ مربوط کردیا ہے ۔

ارشاد باری ہے:

( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآَيَاتِنَا يُوقِنُونَ ) [السجدة: 24]

“اور ہم نے ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ان میں ایسے ائمہ بنا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائي کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔”

امامت کایہ منصب جلیل ان کے صبر ویقین کی وجہ سے ہے۔ اسی سے صبر کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ صبر کا مطلب ہے اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے رک جانے اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق کرنے میں جو تکلیفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے جھیلنا۔ اللہ نے فرمایا ان کے صبر کرنے اور آیات الہٰی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔

ایک آیت میں کہا گيا ہے کہ اگر تم بدلہ لینا چاہتے ہو تو بدلہ لے سکتے ہو بشرطیکہ بدلے میں تم تجاوز نہ کرو تاہم معاف کر دینا اور صبر کر لینا بہتر ہے ۔

ارشاد باری ہے:

(وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ١٢٦ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ) [النحل: 126 - 127]

“اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے۔ آپ صبر کریں اور بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر بھی نہیں سکتے۔”

اس آيت میں صبر کرنے کی تاکید کے ساتھ اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ اللہ کی توفیق واعانت کے بغیر صبر کرنا ممکن نہیں ہے اس سے معلوم ہواکہ صبر نہایت مشکل اور کٹھن کام ہے۔

اسی وجہ سے اللہ نے فرمایا:

( وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ) [الشورى: 43]

" اور جو شخص صبر کر لے اور معاف کردے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سےہے۔"

ایک جگہ کہا گیا ہے کہ اگر آدمی صبر وتقویٰ پر قائم رہے تو اسے دشمنوں کی چالوں اور ان کی مکاریوں اور فریب کاریوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ۔

ارشاد باری ہے:( وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ) [آل عمران: 120]

“تم اگر صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دےگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے۔”

فلاح وکامیابی کو اللہ تعالیٰ نے صبر وتقویٰ کے ساتھ معلق فرمایا ہے ارشاد ہے :

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) [آل عمران: 200]

”اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔”

جو لوگ صبر کرتے ہیں اللہ ان سے محبت رکھتا ہے ۔ ارشاد باری ہے :

( وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ) [آل عمران: 146]

“اور اللہ صبر کرنے والوں کو (ہی) چاہتا ہے۔”

اللہ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے، اس میں صبر کی زبردست ترغیب ہے ۔ ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو تین باتوں کی خوشخبری دی ہے، ارشاد باری ہے :

( وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ١٥٥ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ١٥٦ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ) [البقرة: 155 - 157]

“اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔”

پہلی بات یہ ہے کہ ان پر اللہ کی نوازش ہو‏گی دوسری یہ کہ وہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں ہوں گے۔ اور تیسری یہ کہ وہ ہدایت یاب ہو گے۔ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک میں خیر ہی خیر ہے اللہ تعالیٰ نے آفاق وانفس میں جو بےشمار نشانیاں رکھی ہیں ان سے وہی لوگ فائدہ اٹھا تے ہیں جو صبر کے زیور سے متصف ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں چار مقامات: سورۂ ابراہیم، سورۂ لقمان، سورۂ سبا، اورسورۂ الشوری میں فرمایا:

( إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ) [لقمان: 31]"یقیناً اس میں ہر صبر وشکر کرنے والے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔"

صبر کی تین قسمیں ہیں، پہلی قسم اللہ تعالیٰ کے اوامر واطاعت پر صبر ہے یعنی اس کے احکام کی بجاآوری میں جن تکلیفوں اور ناگواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پر صبر کرنا اور خندہ پیشانی کے ساتھ ان احکام کو بجا لانا ۔

دوسری قسم منہیات پر صبر ہے یعنی جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے اس سے رک جانے میں بظاہر جس محرومی کا احساس ہوتا ہے اس پر صبر کرنا۔ اور تیسری قسم تقدیر اور فیصلۂ الہٰی پر صبر کرنا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے قسمت میں جوپریشانیاں اور آفات ومصائب لکھ دیئے ہیں ان پر ناگواری اورناراضگی کا اظہار نہ کرنا اور ان پر جزع فزع نہ کرنا۔ یہ تینوں قسمیں وہی ہیں جن کے متعلق شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں کہا ہے بندے کے لیے ضروری ہے کہ جو حکم اسے ملا ہو اسے بجا لائے اور جس سے روکا گیا ہو اس سے رک جائے اور جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہو اس پر صبر کرے اور انہی تینوں قسموں کی حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی ۔

( يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ) [لقمان: 17]

"اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے اس پر صبر کرنا۔"

امر بالمعروف، خود کرنے اور دوسروں کو اس کا حکم دینے دونوں کو شامل ہے اسی طرح نہی عن المنکر میں بھی خود اس سے رکنا اور دوسروں کو روکنا دونوں چیزیں داخل ہیں ۔

میرے بھائیو !عقلمند انسان وہی ہے جو کبھی بھی کسی آفت ومصیبت کی تمنا نہیں کرتا اور اگر کوئی مصیبت آجاتی ہے تو اس پر جز ع فزع نہیں کرتا بلکہ اس پر صبر کرتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(یا أیھا الناس! لا تتمنوا لقاء فئۃ فإذا لقیتموھم فاصبروا واعلموا أن الجنۃ تحت ظلال السیوف)

"اے لوگو ! دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگو لیکن جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو پامردی دکھا ؤ اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔"

ابن بطال فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو کر نے سے منع فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی ناپسندیدہ امر کی آرزو نہیں کرنی چاہئے کیونکہ انسان کو یہ معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور اسے کیسے اس سے نجات مل پائےگی، اسی وجہ سے، سلف اللہ سے فتنوں اور آزمائشوں سے عافیت کا ہمیشہ سوال کرتے رہتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ہے:

(لإن أعافی فأشکر، أحب إلی من أن ابتلی فاصبر)

“مجھے عافیت میں رہ کر اللہ کا شکر ادا کرنا مصیبت میں مبتلا ہو کر صبر کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔”

مومن کے حق میں ساری چیزیں جو اسے پہنچتی ہیں بہتر ہوتی ہیں۔ چاہے وہ خیر ہوں یا شر۔ صحیح مسلم میں صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:

“عجبًا لأمر المومن إن أمرہ کلہ خیر، ولیس ذلک لأحد إلا للمومن إن أصابتہ سرّاء شکر فکان خیرا لہ و إن أصاباتہ ضراء صبر، فکان خیرا لہ”

“مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے بھلائی ہے اور یہ چیزیں مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو اس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ تو یہ شکر کرنا بھی اس کے لیے بہتر ہے یعنی اس میں اجر ہے اور اگر اسے تکلیفیں پہنچتی ہیں تو صبر کرتا ہے۔ تویہ صبرکرنا بھی اس کے لیے بہتر ہے کہ صبر بھی بجائے خود نیک عمل اور باعث اجر ہے۔”

میرے بھا ئیو! یاد رکھئے، زندگی پوری امتحان وآزمائش کا نام ہے۔

ارشاد باری ہے:

( وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ) [الأنبياء: 35] "ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے۔"

اللہ تعالی ٰ بندے کو آز ماتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون مومن صادق ہے اور کون مومن صادق نہیں۔

ارشاد باری ہے:

( أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ ) [آل عمران: 142]

”کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤگے، حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟”

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ ) [محمد: 31]

”یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کر لیں۔”

ان کے علاوہ اور بھی اس مفہوم کی بہت سی آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی آزمائش ضروری ہے۔ اور یہ آزمائش شر وخیر دونوں طریقوں سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی آزمائش میں صبر کرنے اور ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے۔آمین۔

إن الحمد لله، نحمده, ونستعينه, ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،

ان آزمائشوں کو دیکھناہو تو آپ مکی زندگی پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“شکونا إلی رسول اللہ صلی علیہ وسلم وھو متوسد بردۃ لہ فی ظل الکعبۃ، فقلنا: ألا تستنصر لنا، ألا تدعو لنا؟ فقال: قد کان من قبلکم یؤخذ الرجل، فیحفر لہ فی الأرض، فیجعل فیھا، ثم یؤتی بالمنشار، فیوضع علی رأسہ، فیجعل نصفین، ویمشط بأمشاط الحدید، ما دون لحمہ وعظمہ، ما یصدہ ذلک عن دینہ۔ واللہ لیتمن اللہ ھذا الأمر، حتی یسیر الراکب من صنعاء إلی حضر موت، لا یخاف إلا اللہ، والذئب علی غنمہ، ولکنکم تستعجلون” (رواہ البخاری)

“ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جب کہ آپ خانہ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کا تکیہ لگائے آرام فرمارہے تھے ۔ ہم نے کہا: آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب کیوں نہیں فرماتے؟ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم سے پہلے لوگوں کا یہ حال ہوتا تھا کہ آدمی پکڑ کر لایا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڑھا کھود کر اس میں اسے کھڑ ا کر دیا جاتا، پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کردیے جاتے اور لوہے کی کنگھیاں اس کے جسم پرپھیری جاتیں، جس سے اس کا گوشت اور ہڈیاں تک متاثر ہوتیں؛ لیکن یہ آزمائش اسے اس کے دین سے نہ پھیرتیں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالی ٰ اس معاملے کو ضرور مکمل فرمائےگا۔ دین اسلام کو غالب کرےگا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک اکیلا سفر کرےگا ؛ لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا، اور اسی طرح اسے اپنی بکریوں پر بھیڑیوں کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا ۔ لیکن تم جلد بازی سے کا م لے رہے ہو ۔

آزمائشیں دنیا میں مومن کے لیے نعمت ہیں۔”

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

“إذا أراد اللہ بعبدہ خیرا عجل لہ العقوبۃ فی الدنیا وإذا أراد اللہ بعبدہ الشر أمسک عنہ بذنبہ حتی یوافی بہ یوم القیامۃ، وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن اللہ تعالی إذا أحب قوما ابتلاھم، فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط” (ترمذی)

“جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو اس کے گنا ہوں کی سزا دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ یعنی تکلیفوں اور آزمائشوں کے ذریعہ اس کے گناہوں کی معافی کا سامان پیدا فرما دیتا ہے اور جب اپنے بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا اس سے دنیا میں روک لیتا ہے ۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دےگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا : آزمائش بڑی ہوگی اسی حساب سے اس کا بدلہ بھی بڑا ہوگا ۔ اوراللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو اس کو آزمائش سے دوچار فرماتا ہے۔ پس جو اس میں صبر ورضا کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے۔ اور جو اس کی وجہ سے اللہ سے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کرتا ہے اس کے لیے اللہ کی ناراضگی ہے۔”

اس لیے میرے بھائیو!آزمائشوں اور تکلیفوں پر صبروثبات قدمی ضروری ہے۔ بےصبری کا مظاہرہ تو گناہ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

یاد رکھیئے، صبر در اصل وہی صبر ہے جو مصیبت کے شروع ہی میں کیا جائے۔ بعد میں چارو ناچار آدمی کو صبر آہی جاتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

“مر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بإمرأۃ تبکی عند قبر، فقال اتقی اللہ واصبری، فقالت: إلیک عنی فإنک لم تصب بمصیبتی ولم تعرفہ، فقیل لھا: إنہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فأتت باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، فلم تجد عندہ بوابین فقالت: لم أعرفک فقال: إنما الصبر عند الصدمۃ الأولی” (بخاری ومسلم)

“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ نے اس سے فرمایا: اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر۔ اس عورت نے کہا: پرے ہٹ، تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی ہے، جو مجھے پہنچی ہے۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچا نا نہیں۔ اس لیے فرط غم میں اس نے نازیبا انداز اختیار کیا۔ بعد میں اس کو بتلایا گیا کہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہ سن کر وہ آپ کے دروازے پر آئی۔ وہاں دربانوں کو نہیں پایا۔ آکر اس نے کہا میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا : صبر تو یہی ہے کہ مصیبت کے آنے پر شروع ہی میں صبر کیا جائے۔”

مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ یہ قبر اس کے بچے کی تھی، جس پروہ رو رہی تھی، مصیبت چاہے جتنی بڑی ہو اگر آدمی صبر کرنا چاہتا ہے، تو اللہ اسے صبر دے دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

“من یتصبر یصبرہ اللہ”

“ جو صبر کا دامن پکڑتا ہے اللہ اسے صبر کی توفیق دے دیتا ہے۔”

صبر پیغمبرانہ صفات میں سے ہے۔ اللہ کے تمام انبیاء ورسل صبر ورضا کے اعلی ٰ معیار پر فائز ہوتے تھے۔ قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو وہ نہ صرف خندہ پیشانی سے برداشت کرتےتھے بلکہ ان کی ہدایت کے لیے دعا فرماتے تھے۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:

“کأنی أنظر إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحکی نبیا من الأنبیاء صلوات اللہ وسلامہ، ضربہ قومہ فأدموہ وھو یمسح الدم عن وجھہ، یقول: اللھم أغفر لقومی فإنھم لایعلمون”

“گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیائے کرام میں سے کسی نبی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جس کو اس کی قوم نے مار مار کر لہو لہان کر دیا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتا ہوا کہہ رہاہے:اے اللہ! میری قوم کو معاف فرما دے، اس لیے کہ وہ بےعلم ہے۔”

مومن پر اللہ کا خاص فضل وکرم یہ ہے کہ اسے دنیا میں جوآفات ومصائب پہنچتے ہیں انہیں اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب وہ صبر کرے۔ اگر وہ صبر کرنے کے بجائے جزع فزع کرے اور تقدیر الہٰی کا شکوہ کرے تو اس دنیوی تکلیف کے ساتھ اسے آخرت میں گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑ جائےگا۔

اس لیے میرے بھائیو!زندگی کے جملہ امور ومعاملات میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے۔ کسی بھی قسم کی تکلیف پر چاہے وہ اپنی بیوی سے پہنچے یا اپنےاعزہ وآقارب سے پہنچے یا غیروں سے، ہر صورت میں ہمیں صبر وضبط سے کام لینا چاہئے، اور بےصبری کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔

اخیر میں اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور آپ سب کو زندگی کے تمام معاملات میں صبر اور ثبات قدمی کی توفیق بخشے اور ہر خیر وبھلائی کے کام میں ہماری مدد کرے، (إنہ علی کل شئ قدیر)

أقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم۔