إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد!
قال اللہ تعالی ( وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا ) [النساء: 131]
“زمین اور آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت میں ہے اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کروگے تو یاد رکھو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بہت بےنیاز اور تعریف کیا گیا ہے۔”
محترم حاضرین ! ابھی میں نے آپ کے سامنے جو آیت کریمہ پڑھی ہے اس میں اللہ تعالی ٰ نے ہمیں تقویٰ کا حکم دیاہے اور بتا یاہے کہ تم سے پہلے جو اہل کتاب گزرے ہیں انہیں بھی اسی کا حکم دیا گيا تھا۔ یہ حکم تمام اولین وآخرین کو اس وجہ سے دیا گیا کہ دنیا وآخرت دونوں کی نجات وفلاح در حقیقت تقوی ہی میں مضمر ہے۔ تقویٰ ہر قسم کے فتنوں سے بچنے کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ تقوی ٰ دراصل اللہ سے ڈر کر اس کے اوامر کو بجا لانے اور اس کے نواہی سے اپنے آپ کو بچانے کا نام ہے ۔ تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اس نے اپنے تمام بندوں کو دیا ہے۔ چاہے وہ مرد ہوں یا عورت۔ لیکن مرد چونکہ عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو تقویٰ کی ترغیب دیں اور اس کے لیے جو بھی جائز تربیتی وسائل وذرائع ہیں انہیں اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عورتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ کیونکہ وہ ان پر اپنا مال خرچ کر تے ہیں اور عقل وشعور اور معاملات کے انجام وعواقب پر نظر رکھنے میں بھی وہ عورتوں سے آگے ہیں۔
ارشاد باری ہے : ( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ) [النساء: 34]
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔"
اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مرد عورت سے قوی ہے۔
اس کے بر خلاف اُنوثت (عورت ہونا) خلقی اور فطری کمزوری ہے۔ عورت کے ضعیف الخلقت ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ اسی لیے سارے لوگ عورتوں کے لیے زیورات اور زینت کی چیزیں مہیا کرتے ہیں۔ ایسا اس کی طبعی اور خلقی کمزوری کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ برخلاف مرد کے اس کی ذکورت اسے زیورات اور زینت کی چيزوں سے بےنیاز کر دیتی ہے۔
آج کل کی خواتین نیکی وتقوی ٰ اور عفت وپاکدامنی میں عہد نبوی کی خواتین جیسی نہیں ہیں۔ ہماری عورتوں کی اکثریت دینی شعور سے عاری ہے۔ سر کاری آفسوں میں عورتیں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتی ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان لڑکیاں نوجوان لڑ کوں کے ساتھ بےپردہ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ بسوں اورٹرینوں میں مرد اور عورت ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے فحاشی اور بےحیائی عام ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے مرد وزن کے اس اختلاط کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کرتے ہو فرمایا ہے:
( وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ ٢٣ فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ٢٤ فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ٢٥ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ) [القصص:23 - 26]
“مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وه بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔ پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی، کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وه کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔”
میرے بھائیو!موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ میں غور کیجئے، جب وہ مصر سے بھاگ کر مدین آ اور وہاں ایک کنویں پر پہنچے تو لوگوں کو اپنےجانوروں اور مویشیوں کو وہاں پانی پلاتے ہو دیکھا۔ وہاں انہیں دو عورتیں بھی ملیں، جو اپنے مویشیوں کو لے کر الگ کھڑی ہوئی تھیں۔ حضرت موسی ٰ نے ان دونوں عورتوں سے پوچھا: تم الگ کیوں کھڑی ہو؟ اپنے مویشیوں کو پانی کیوں نہیں پلاتی ہو؟ تو ان دونوں عورتوں نے جواب دیا کہ جب یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر واپس چلے جائیں گے، تو اس کے بعد ہم اپنے جانوروں کو پلا ئیں گی۔ کیوں کہ ہم ان سے اختلاط کو پسند نہیں کرتیں ۔
میرے بھا ئیو! ان دونوں عورتوں کے طرزِ عمل پر غور کرو اور ہماری عورتوں کی موجودہ صورت حال کا ان سے موازنہ کرو۔ ہمارا دین ہمیں بچپن ہی سے تقویٰ اور پاکدامنی کی تربیت دیتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(مروا أولادکم بالصلاۃ وھم أبناء سبع سنین وأضربوھم علیھا وھم أبناء عشر سنین، وفرقوا بینھم فی المضاجع)
“ اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو، جب وہ سات سال کے ہو جائیں ، اور نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو،جب وہ دس سال کے ہو جائیں۔ اور ان کے بستر الگ کردو۔”
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کمسن بچوں تک کے ایک بستر پر سونے کو پسند نہیں کرتا اور حکم دیتا ہے کہ جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کردو۔
عورتوں کا زیب وزینت کے ساتھ بےپردہ باہر نکلنا مردوں کے لیے زبردست فتنہ ہے۔ آج کل سڑکوں بازاروں اور میلوں میں جو حیاسوز مناظر ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری نوجوان نسلوں کے بگاڑ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ نے مرد اورعورت دونوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اور عورتوں کو بےپردہ باہر نکلنے سے منع فرمایا ہے۔
ارشاد باری ہے ( قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ) [النور: 30]
”مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔”
اور آگے عورتوں کے متعلق ارشاد ہے ( وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) [النور: 31]
"مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔"
اہل علم کا کہنا ہے کہ دل کی طرف جانے والے جتنے بھی دروازے ہیں ان میں آنکھ سب سے برا دروازہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ چالو راستہ یہی ہے ۔ اسی وجہ سے گنا ہ کے زیادہ کام اسی جہت سے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) [الإسراء: 36]
“جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔”
یعنی کا ن، آنکھ اور دل سب کی بابت باز پرس ہوگی۔
شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد زنا سے حفاظت بھی ہو سکتا ہے اور انہیں بےستری سے محفوظ رکھنا بھی ہو سکتا ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ اس سےدونوں ہی مراد ہیں۔ کیونکہ لفظ عام ہے۔ زنا کو بھی شامل ہے اوربےستری کو بھی۔ اور “إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا” سے مراد وہ حصۂ جسم ہےجس کا چھپا نا اور پردہ کرنا ممکن نہ ہو، جیسے کسی کو کوئی چیز پکڑاتے ہو یا اس سے لیتے ہو ہتھیلیوں کا ظاہر ہو جانا، یا دیکھتے ہو آنکھوں کا ظاہر ہو جانا۔ اس ضمن میں ہاتھ میں جو انگوٹھی پہنی ہو، یا ہاتھ میں جو مہندی لگی ہو، یا آنکھوں میں سرمہ یا کاجل ہو، یا لباس اورزینت کو چھپا نے کے لیے جو برقع یا چادر اوڑھی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی زینت ہی ہے۔ یہ ساری زینتیں ایسی ہیں جو “إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا” میں داخل ہیں۔ اور ایسی ہیں جن کا اظہار بوقت ضرورت یا بوجہ ضرورت جائز ومباح ہے۔
عورتوں کے جہنم میں جانے کا ایک سبب ان کا بناؤ وسنگار کر کے بےپردہ نکلنا ہے۔
صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
(صنفان من أھل النار لم أرھما قوم معھم سیاط کأذناب البقر یضربون بھا الناس ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات رؤسھن کأسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحھا و إن ریحھا لتوجد من مسیرۃ کذا وکذا)
“جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا یعنی یہ بعد میں ہوں گی، ایک وہ لوگ ہیں جن کے پاس گا کی دموں کے مانند کوڑے ہوں گے، جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ اور دوسری وہ عورتیں ہوں گی جو لباس پہنی ہوں گی؛ مگر برہنہ ہوں گی۔ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی جانب مائل ہونے والی ہوں گی۔ ان کے سر نجتی اونٹ کے جھکے ہوئے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں جنت میں نہیں جائيں گی۔ بلکہ اس کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی۔ حالانکہ اس کی خوشبو اتنے اتنے فاصلے سے آ گی۔
علامہ ابن عبد البر اس حدیث کی شرح میں فر ماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو ایسے باریک کپڑے پہنتی ہیں جس سے ان کا جسم جھلکتا ہے اور ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ بظاہر اگرچہ وہ کپڑے پہنے ہوتی ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ ننگی ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس میں وہ عورتیں بھی داخل ہیں، جو ایسے تنگ اور چست کپڑے پہنتی ہیں، جس سے ان کے جسم کے تمام نشیب وفراز ظاہر ہوتے ہیں ۔ در حقیقت عورت کا لباس ایسا ہونا چا ہئے جو مکمل ساتر ہو، موٹا اور ڈھیلا ڈھالا ہو۔ اس طرح عاریات کے مفہوم میں وہ عورتیں بھی داخل ہیں ، جو اپنے جسم کے کچھ حصے کو کپڑوں سے ڈھاکے رکھتی ہیں اور کچھ حصے کھلا چھوڑ دیتی ہیں ۔
اور مائلات کے معنی بعض کے نزدیک یہ ہیں کہ اللہ کی فرمانبرداری اور ان چيزوں سے جن کا التزام ان کے لیے ضروری ہے، اعراض کرنے والی ہوں گی۔ اور ممیلات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنے برے کام دوسروں کو بھی سکھا ئیں گی اور بعض نے کہا: مائلات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اَٹھ کھیلیاں کرتی ہوئی چلتی ہیں۔ اور ممیلات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنے کندھوں کو لٹکا تے ہوئے چلتی ہیں۔
اس حدیث میں ان عورتوں کے لیے سخت وعید ہے جو بےپردگی اور اپنی زیب وزینت اور حسن وجمال کے اظہار کو اپناتی ہیں۔ جوکہ بدکار عورتوں کا شیوہ ہے۔ اور مردوں کے لیے فتنے کا باعث ہوتی ہیں۔ مردوں کو عورتوں کے اس شر اور فتنے سے بچنے کے لیے اللہ تعالی ٰ نے انہیں اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیاہے۔ غیر محرم عورت پر بغیر ارادے کے اگر اچانک نظر پڑ جائے تو فورا ً نظر پھیر لینے کا حکم دیا گیا ہے اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے منع فرمایا گياہے۔ کیونکہ پھر اس میں قصد شامل ہو جائےگا، جو گناہ ہے۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:
“سالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نظر الفجأۃ فقال: أصرف بصرک” (مسلم)
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے سے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: اپنی نظر فوراً پھیر لو۔”
اسی فتنے سے بچنے کے لیے آپ نے اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا یخلو أحدکم بإمراۃ إلا مع ذی محرم)
“تم میں سے کوئی کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے، مگر محرم کے ساتھ ۔”
آنکھوں سےسرزد ہونے والے ان گناہوں سے بچنا چاہئے۔ اور اس آیت کو ہمیشہ اپنی نگا ہوں کے سامنے رکھنا چاہئے:
( يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ) [غافر: 19]
”وه آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیده باتوں کو (خوب) جانتا ہے۔”
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد!
میرے بھائیو ! اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
“ما ترکت بعدی فتنۃ ھی أضر علی الرجال من النساء” (متفق علیہ)
“میں نے اپنے بعد مردوں کے حق میں عورتوں سے زیادہ خطرناک فتنہ کوئی اور نہیں چھوڑا۔”
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے حسن وجمال کو مردوں کے لیے تمام فتنوں میں سب سے بڑا اور سب سے خطرناک فتنہ قرار دیا ہے۔ عورتوں کی بدزبانی اور بداخلاقی بھی مردوں کے لیے کم فتنہ نہیں۔ اس کی وجہ سے اکثر طلاق کی نوبت آتی ہے اور گھر اجڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ عورت جو زیب وزینت اور بناؤ سنگار کی رسیا ہوتی ہے۔ اس کی ان ناجائز خواہشات کی تکمیل کےلیے بسااوقات مرد رشوت خوری اور ناجائز ذرائع آمدنی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقعوں پر عورتیں ہی تمام بےہودہ رسم ورواج اختیار کر کے مردوں کو آمادہ کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ زندگی کے اور شعبوں میں بھی مردوں کےلیے فتنے کا سامان بنتی ہیں۔ اورانہیں حرام اور ناجائز امور پرمجبور کر دیتی ہیں۔
اور اگر عورت پاک طینت وپا کدامن اور وفاشعار ہو، تو وہ دنیا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ)
“دنیاکی سب سے بہتر پونجی نیک عورت ہے۔”
ہمارے اسلاف کی عورتیں باحیا اور پاکدامن ہوتی تھیں۔ اللہ سے ڈرتی تھیں اور شریعت کے ہر حکم کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ آپ واقعہ اُفک میں غور کیجئے، کس طرح ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اور صحابی جلیل صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ نے مدینہ تک کا سفر کیا اور دونوں نے کوئی بات نہیں کی، سوا اس کے کہ جب صفوان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین کودیکھا تو “إنا للہ وإنا إلیہ راجعون” پڑھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور کلمہ ان دونوں کی زبان سے نہیں نکلا۔ اسی طرح آیت حجاب نازل ہوئی تو فوری طورپر تمام عورتیں پردے کے ساتھ نکلنے لگیں۔ صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ:
( يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ) [الأحزاب: 59]
وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔”
نازل ہوئی تو انصاری عورتیں اس طرح نکلیں گویا ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہو ہیں۔ وہ اپنے سروں پر سیاہ چادریں ڈالے ہوئی تھیں۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت نے پوچھا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں اور مجھے گندی جگہوں پر سےچلنا پڑتا ہے، تو میرا کپڑاکیسے پاک رہےگا؟ آپ نے فرمایا: “یطھرہ ما بعدہ” گندی جگہوں کے بعد صاف جگہوں پرسے جو دامن گھسٹےگا، تو وہ اسے پاک کردےگا۔”
علامہ باجی رحمہ اللہ (إنی إمرأۃ أطیل ذیلی) “میں ایک عورت ہوں جو اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں” کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ وہ کپڑا لمبا رکھتی ہیں، تاکہ ان کے قدم چھپے رہیں اور چلنے میں کھلیں نہیں۔ صحابہ کرام کی عورتیں شریعت کے ہر حکم کو اسی طرح بےچوں وچرا تسلیم کرتیں اور اس پر عمل کرتیں تھیں۔ اسی وجہ سے وہ فتنوں سے محفوظ رہتی تھیں۔ اس کے برعکس آج ہماری عورتوں کا حال یہ ہےکہ انہیں اللہ ورسول کے احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ وہ مغربی تہذیب کی دلدادہ ہیں۔ اور اپنی بےحجابی اور بےپردگی سے مردوں کے لیے حشر سامانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
اللہ نے مردوں کو ان پر حاکم بنایا ہے۔ انہیں دین اورعقل دونوں اعتبار سے کمزور پیدا کیا ۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو ان کے سلسلہ میں خیر کی تاکید فرمائی۔ آپ نے حجۃ الوادع کے خطبے میں فرمایا:
(ألا واستوصوا بالنساء خیرا فإنھن عوان عندکم)
“ سنو!تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، کیونکہ وہ تمہاری ماتحت ہیں۔”
اور بعض روایتوں میں یہ الفاظ وارد ہیں:
(استوصوا بالنساء خیرا فإن المرأۃ خلقت من ضلع وإن أعوج ما فی الضلع أعلاہ فإن ذھبت تقیمہ کسرتہ وإن ترکتہ لم یزل أعوج فاستوصوا بالنساء خیرا)
“تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اس لیے کہ ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے۔ اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کے اوپر کا حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے لگےگا، تو اسے توڑ بیٹھےگا، اور اگر اسے چھوڑ دےگا، تو وہ ٹیڑھی ہی رہےگی۔ پس تم عورتوں کا خیال رکھو۔”
اس حدیث میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے۔ اس لیے کہ عورت فطری طور پر مرد سے کمزور واقع ہوتی ہے۔ اور کج فطرت اور کم عقل بھی ہے۔ اس لیے مردوں کو صبر وتحمل اور عفو ودرگذر سے کام لینا چاہئے۔ جو لوگ عورت کے ساتھ بےرحمی اور بےجا تشدد روا رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اسے سیدھا کر لیں گے، یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ان کا یہ رویہ ان کے گھر کو جہنم کدہ بنا دیتا ہے ۔ یاپھر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ اور ان کا بسا بسایا گھر اجڑ جاتا ہے۔ اور بچوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیں عورتوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ اور ان کی نادانی اور کم عقلی پر صبر وضبط سے کام لینا چاہئے۔ اور اسے ان کی فطری کمزوری اور کجی پر محمول کرنا چاہئے اور انہیں سمجھا بجھا کر راہِ راست پر قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری عورتوں کو دین پر قائم رکھے اور ہمیں توفیق دے کہ ان کی صحیح ڈھنگ سے اسلامی تر بیت کر سکیں اور اللہ ورسول کے احکام پر خود عمل پیرا رہیں اور انہیں بھی اس کا عادی بنا ئیں ۔ اللہ تعالی ٰ ہمیں اور آپ سب کو ہر طرح کے شر وفتنے سے محفوظ رکھے۔
أقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم۔