پہلاخطبہ:
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،
اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے:
( وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ) [القصص: 68]
“ اور آپ کا رب جو چاہتا پیدا کرتا ہے، اور پسند کرتا ہے، لوگوں کوکوئی اختیار نہیں ہوتا۔”
اور اپنی مخلوق میں سے اپنی حکمت بالغہ کے تحت جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور انہیں اپنا فرستادہ اور نبی ورسول بنا لیتا ہے۔ اسی طرح مقامات اور جگہوں میں جس کو چاہتا ہے فضیلت بخشتا ہے۔ فرمایا:
( اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ) [الحج: 75]
“فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ چھانٹ لیتا ہے،
اللہ تعالیٰ نے مکہ کو سارے مقامات پر فضیلت بخشی ہے۔ پھر اس کے بعد خاتم الانبیاء، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ مدینہ کو، پھر اس کے بعد بیت المقدس کو جو بہت سے انبیاء کی قیام گاہ ہے۔ اسی طرح اللہ نے مہینوں اور دنوں کو دیگر مہینوں اور دنوں پر فضیلت بخشی ہے۔ چنانچہ جب سے اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے تب سے ہی کتاب اللہ میں سال کے بارہ مہینے قرار پائے جن میں چار مہینے محترم یعنی ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب۔ سب سے بہتردن جس پر سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اس لیے تم اس کی عظمت سمجھو۔ جس کو اللہ نے باعظمت قرار دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت ہے: جمعہ کے دن جوغسل کرے، سویرے مسجد جائے، اور خطیب کے قریب بیٹھے اور توجہ سے خطبہ سنے، تو مسجد آنے والے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے قیام وصیام جیسا ثواب ہے۔ (امام احمد نے یہ حدیث روایت کی ہے جس کے رجال ورواۃ ثقہ ہیں)
اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جمعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر خوبصورت عورت جیسی چیز رکھی گئی۔ اس کے بیچ میں سیاہ نکتہ جیسا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ اے جبریل یہ کیاہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ جمعہ ہے۔ آپ کا رب آپ کو یہ پیش کررہا ہے تاکہ اسے آپ کے لیے اور آپ کے بعد آپ کی قوم کے لیے عید کا دن اور آپ سب کےلیے اس میں خیر وبھلائی رکھ دے۔ آپ پہلے ہوں گے۔ اور یہود ونصاری آپ کے بعد اور اس جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس میں کوئی بندہ اپنے رب سے جب دعائے خیر کرے تو وہ اسے ضرور عطا کرےگا، یا کسی شر سے اس کی پناہ مانگے تو اس سے اس کو بچا لےگا، اور آخرت میں اسے ہم یوم المزید کہیں گے۔ (طبرانی فی الأوسط باسناد جید)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بہترین دن جب سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اس دن اللہ نے آدم کو پیدا کیا۔ اسی دن جنت میں ان کو داخل کیا اور اسی دن ان کو جنت سے نکالا گیا۔ (مسلم أبوداود، ترمذی ونسائی)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ سے محروم رکھا۔ یہود کے لیے سنیچر کا دن تھا اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا۔ چنانچہ وہ قیامت تک ہمارے پیرو ہوں گے دنیا میں ہم سب کے بعد اور قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے۔ ہمارا فیصلہ سبھی لوگوں سے پہلے ہوگا۔ (مسلم)
جمعہ کے دن کی سب سے اہم خصوصیت جمعہ کی نماز ہے۔ کیونکہ یہ بہ اعتبار قدر سب سے اہم، بہ اعتبار فرض سب سے مؤکد اور بہ اعتبار ثواب سب سے زیادہ ثواب والی نماز ہے۔ اسلام نے اسے بہت قابل اعتناء سمجھا ہے اور اس کا پاس ولحاظ رکھنے پر بہت زور ڈالا ہے۔ جمعہ کے لیے اسلام نے غسل کرنے، پاک صاف رہنے، خوشبو لگانے، بدبو دار چیزوں سے دور رہنے اور سب سے خوبصورت لباس اور سب سے مناسب ہیئت وحالت میں جمعہ کی نماز کے لیے گھر سے نکلنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی طرح جمعہ کے لیے سویرے نکلنے، امام سے قریب رہنے اور وعظ ونصیحت کو سننے کے لیے خاطر جمع رکھنے کی تاکید کی ہے۔
چنانچہ متفق علیہ روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرے، پھر پہلے ہی مرحلہ میں مسجد کےلیے چلے تو اس نے گویا ایک اونٹ قربان کیا۔
اور ابوداود وحاکم نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمعہ میں ہر وقت حاضر رہو اور امام سے قریب رہو۔ کیوں کہ آدمی دور ہوتے ہوئے جنت میں داخل ہوکر بھی پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔
مسجد پہنچ جائے تو نماز، ذکر واذکار اور تلاوت قرآن جیسی عبادت واطاعت میں لگارہے۔ یہاں تک کہ امام وخطیب اپنی جگہ سے نکل کر مسجد چلاآئے۔
پھر جب امام پہنچ جائے تو گوش بر آواز ہو اور خطبہ سنے۔ پھر خشوع وخضوع اور سکون واطمینان اور خالص نیت سے کی جا رہی تلاوت قرآن پر غور وفکر کرے اور نماز ادا کرے۔ اس کے بعد جب فرض نماز سے فارغ ہو تو بعد نماز مشروع ثابت ذکر واذکار میں لگ جائے۔ پھر مسنون یہی ہے کہ مسجد میں چار رکعت نفل نماز پڑھے یا دو رکعت اپنے گھر میں پڑھے۔ اور گھر میں ہی ان رکعتوں کو جاکر پڑھنا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں افضل ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں ایسا ثابت ہے۔ چنانچہ جو شخص ایسا کرنے کا مشتاق ہو اور خالص نیت کے ساتھ اس کو ادا کرے تو وہ اس مبارک دن کی فضیلت پانے اور منعم کریم (اللہ) کے ثواب حاصل کرنے کا لائق وسزا وار ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو اچھی طرح وضو کرکے جمعہ کے لیے مسجد میں آئے۔ پھر خطبہ سنے اور خاموش رہے۔ تو اس کے آئندہ جمعہ تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، نیز مزید تین دن کے ۔ (مسلم)
جمعہ کے ثواب کے فوت ہونے یا ثواب کم ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب جمعہ کے لیے مسجد پہنچنے میں دیر کرنا ہے۔ اسی طرح مصلیوں کی گردنیں پھاند کر اگلی صف میں جانا ہے۔ جیسا کہ جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے آپ نے اس پرنکیر کرتے ہوئے فرمایا: بیٹھ جا، تو نے لوگوں کو تکلیف دی ہے۔ جو ایسا کرتا ہے اس کے تئیں یہ خدشہ ہے کہ وہ اس فرمان عز وجل کے عموم میں داخل وشامل ہو:
(وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا) [الأحزاب: 58]
“اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔”
اسی طرح ذکرالہیٰ یا تلاوت قرآن اتنی بلند آواز سے کرنا کہ دوسرے لوگوں کی نمازوں میں خلل پیدا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس سے منع فرمایا ہے۔ جس وقت انہوں نے قرات وتلاوت میں اپنی آواز بلند کی: “لا یجھر بعضکم علی بعض بالقرآن” “تم میں کوئی کسی پر قرآن کی تلاوت میں آواز بلند نہ کرے۔”
اور اس سے بھی خراب بات تو یہ ہے کہ دنیوی امور ومعاملات میں دوسرے کے ساتھ گفتگو کرکے تشویش اور الجھاؤ پیدا کرے۔ خصوصاً دوران خطبہ یہ حرمان نصیبی اور بصیرت کی کمی ہے کہ آدمی گفتگو یا کنکری وغیرہ سے کھیل کود کر خطبہ سے بےتوجہی برتے۔ جس کے سبب جمعہ کا ثواب وفضیلت فوت ہوجائے۔ اس پر تنبیہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: “من مس الحصی فقد لغی” “جس نے دوران خطبہ کنکری کو چھوا اس نے لغو کام کیا۔” (مسلم)
حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم نے اپنے بغل والے ساتھی سے چپ رہو کہا تو تم نے لغو کیا۔ اور امام احمد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے چپ رہو کہا تو اس نے غلط کیا اس کا جمعہ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو چھوڑنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ جمعہ کے چھوڑنے سے سےباز آجائیں، نہیں تو پھر اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دےگا اس کے بعد وہ سب غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔
امام احمد نے حسن سند اور حاکم نے صحیح سند سے حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بلا ضرورت تین مرتبہ جمعہ کو چھوڑا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دےگا۔ گویا مسلسل جمعہ کی نمازوں کا ترک ایک ایسا خطرناک فعل ہے کہ اس سے دلوں پر مہر لگ سکتی ہے۔ جس کے بعد انسان کے لیے اخروی فلاح وکامیابی کی امید ختم ہو جاتی ہے۔
جمعہ کے دن کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ جمعہ کو نماز فجر کی پہلی رکعت میں “الم السجدۃ” اور دوسری رکعت میں “ھل أتی علی الإنسان” پڑھتے تھے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سید الانام ہیں اور جمعہ سیدالایام ہے۔ چنانچہ اس دن آپ پر درود وسلام ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں۔ آپ کی امت نے دنیا وآخرت کی جو بھی بھلائی پائی ہے وہ اسے آپ کے ہاتھوں ملی ہے۔ چنانچہ اللہ نے آپ کی امت کے لیے دنیا وآخرت دونوں جہان کا خیر جمع کردیا ہے۔ سب سے بڑی کرامت جو لوگوں کوحاصل ہوتی ہے وہ جمعہ کے دن ہی حاصل ہوتی ہے۔ اسی دن ان کو جنت کے گھروں اور مخلوق میں بھیجا جاتا ہے اور وہ جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہ جمعہ ان کے لیے یوم المزید ہوگا۔ اور دنیا میں ان کے لیے یوم العید ہے اور یہ وہ دن ہے جس میں اللہ ان کی حاجات وضروریات پوری کرتا ہے اور کسی سائل (مانگنے والے) کو وہ نامراد نہیں لوٹاتا۔ یہ سب کچھ لوگوں نے جانا اور ان کو ملا تو آپ ہی کے سبب اور آپ ہی کے ہاتھوں اب آپ کا شکر وسپاس اور آپ کے حق کی کم سے کم ادائیگی یہ ہے کہ ہم اس دن کے روزوشب میں آپ پر خوب درود وسلام بھیجیں۔
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد!
اللہ عزوجل نے فرمایا:
( إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ) [الأحزاب: 56]
“اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔”
جمعہ کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جب کسی بندۂ مسلم کو یہ گھڑی میسر آ جائے اور وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو وہ اللہ سے جس چیز کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرما دیتا ہے۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جمعہ کو ایک گھڑی ایسی ہوتی ہےکہ نماز پڑھتے کوئی مسلمان جب اسے پالیتا ہے اور اللہ سے وہ خیر طلب کرتا تو اور وہ اسے ضرور عطا فرماتا ہے۔ محروم ہے وہ جو اس دن کی فضیلت اور اس گھڑی کی برکت سے محروم ہوجائے، جو ہر ہفتہ لوٹ کرآتی ہے، جمعہ کے دن کی اس گھڑی کی تحدید سے متعلق سب سے راجح قول یہ ہے کہ یہ نماز عصر سے غروب آفتاب کے بیچ کا وقت ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔
برادران اسلام! اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں اس خیر عظیم کے حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے۔ جو اللہ نے جمعہ کے دن میں رکھا ہے۔ اپنے سب سے اچھے کپڑے پہنیں، مسواک کریں، اچھی خوشبو لگائیں اور وقار وسکون کے ساتھ سویرے جمعہ کے لیے مسجد جائیں۔ ادب نبوی اور طریقہ محمدی کا خیال وپابندی کریں۔ خیرات وحسنات کی طرف بڑھنے اور اعلیٰ درجے سے کامیاب ہونے والوں میں اللہ ہمیں شامل فرمائے۔
( فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) [المائدة: 54]
“یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔”
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے خصوصی فضل وکرم کا مستحق بنائے اور جمعہ کے دن کی برکتوں او بھلائیوں سے مالامال فرمائے۔ أقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین فاستغفروہ، إنہ ھو الغفور الرحیم۔