islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook


اعتدال ومیانہ روی کتاب وسنت کی روشنی میں


15265
تفصیل
اسلام اعتدال وتوازن اور عدل واستقامت کا دین ہے۔ قرآن وسنت میں بہت سی ایسی آیات واحادیث ہیں جو اسلام کی وسطیت اور اس کے افراط وتفریط سے پاک متوازن ومعتدل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ایسی وسطیت جس میں کوئی انحراف وکجی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ حق ہے جو آسمان سے اترا ہے۔ لہذا وہ غلو وتقصیر اور افراط وتفریط سے پاک ہے۔ نہ اس میں انتہا پسندی ہے اور نہ ا ضاعت وبربادی اور نہ سستی ودلیری۔

برادران اسلام! آج ہم آپ کے سامنے خطاب کا ایسا موضوع پیش کر رہے ہیں جس کی ضرورت امت مسلمہ کو آج خورد ونوش، صحت وتندرستی، مال واولاد حسب نسب خاندان اور مراتب ومنا صب سے بھی زیادہ ہے، اور یہ ہے مسلمانوں کی زندگی میں میانہ روی اور اعتدال کا موضوع۔

میانہ روی، طرفین کے بیچ معتدل موقف سے عبارت ہے، جس میں افراط وتفریط نہ ہو، غلو وزیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو۔ یہ روحانیت ومادیت، واقعیت ومثالیت اور انفرادیت واجتماعیت کے درمیان ایک درست پیمانہ ہے اور جیسا کہ کہاگیا ہے:

“الوسط فضیلۃ بین رذیلتین”

“دو کمتریوں کے بیچ ایک فضیلت وبرتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے۔”

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:

( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ) [البقرة: 143]

اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے۔ تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔

اور فرمایا:

( كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ )

[آل عمران: 110]

“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔”

اور فرمایا:

( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ) [النساء: 171]

“اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔”

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إن الدین یسر، ولن یشاد الدین أحد إلا غلبہ، فسددوا، وقاربوا، وابشروا، واستعینوا بالغدوۃ والروحۃ، وشئی من الدلجۃ” (بخاری)

“ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بےجا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ یعنی ایسا انسان مغلوب ہو جاتا ہے اور دین پر عمل ترک کر دیتا ہے۔ پس تم سیدھے راستے پر رہو اور رات کے کچھ حصہ کی عبادت سے مدد حاصل کرو۔”

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عقبہ کی شب، جب آپ اپنی سواری پر تھے فرمایا: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، تو میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آ جائیں۔ آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے:انہی جیسی کنکریاں مارو۔ پھر آپ نے فرمایا:لوگو! تم دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین کے غلو نے ہی ہلاک وبر باد کردیا۔

ابن جریر طبری فرماتے ہیں: میرے خیال سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان مومنوں کو، دین میں درمیانہ طریقہ اپنانے کی وجہ سے امت وسط سے متصف کیا۔ چنانچہ وہ دین کے بارے میں غلو کرنے والے نہیں۔ ان عیسائیوں کے غلو کی طرح، جنہوں نے ترہیب میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلے میں غلو کیا اور وہ حد سے آگے بڑھ گئے اور انہیں الوہیت کا درجہ دے دیا۔ اور نہ ہی وہ تقصیروکوتاہی والے ہیں، ان یہودیوں کی کوتاہی کی طرح، جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل ڈالا۔ اپنے انبیاء کو قتل کردیا۔ اپنے رب کا انکار کیا ۔ لیکن وہ دین میں توسط، واعتدال والے ہیں۔ اور علامہ شاطبی نے کہا کہ جب آپ شرعی کلیہ پر غور کریں گے تو اسے توسط کا ہی حامل دیکھیں گے۔ اگر کسی پہلو کی طرف دین کا رجحان ومیلان دیکھتے ہیں تو دوسری طرف کے کسی واقع یا متوقع امر کے بالمقابل ہی وہ میلان ہو سکتا ہے۔ چنانچہ سختی کا پہلو عموماً تخویف وتہدید اور زجر وتوبیخ کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال اس آدمی کے مقابلے میں ہوتا جس کے اوپر دینی انحلال وپستی غالب آگئی ہو، اور تخفیف کا پہلو، جو عموما ترجی اور ترغیب وترخیص کے سلسلے میں رہتا ہے، اس آدمی کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے، جس پر سختی کے چلتے حرج اور تنگی غالب آگئی ہو۔ لیکن جب ان دونوں میں سے کوئی پہلو نہ ہو تو آپ توسط اور میانہ روی کو نمایاں اور طریقہ اعتدال کو واضح دیکھیں گے۔ یہی وہ قاعدہ وضابطہ ہے، جس کو دیکھنا اور اپنانا پڑتا ہے۔

برادران اسلام!میانہ روی اور اعتدال پسندی اسلام کے تمام شعبوں میں نمایاں ہے، جیسے شعبۂ اعتقاد میں اسلام اقوام وملل کے بیچ درمیانہ مذہب بن کرآیا۔ چنانچہ اسلام میں نہ الحاد ہے اور نہ وثنیت، بلکہ ربوبیت والوہیت اللہ کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح اسماء وصفات میں تشبیہ وتمثیل اور تحریف وتعطیل کے قائلین کے بیچ درمیانی مذہب ہے۔ اور قضاء وقدر کے سلسلے میں اسلام کا موقف، قدریہ اور جبریہ کے دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک معتدل موقف ہے۔

اور مسئلہ ایمان کے سلسلے میں یعنی اہل سنت والجماعت کا موقف افراط وتفریط سے پاک ہے۔ وہ عمل کو ایمان کا ایک جزء قرار دیتے ہیں اور معصیت کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے۔

اسی طرح گنہگار کو کامل الایمان نہیں سمجھتے، بلکہ اپنے ایمان کے سبب مومن ہوگا،مگر گناہ کبیرہ کے سبب فاسق ہوگا۔

نبوت وولایت اور صحابیت کے سلسلے میں بھی توسط ہے، ان لوگوں کی طرح غلو نہیں جنہوں نے نبیوں اور ولیوں کو رب بنا لیا۔ اور نہ ان یہودیوں کی طرح جنہوں نے نبیوں او رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا۔

اہل اسلام درمیانی راہ اپناتے ہوئے اللہ کے تمام رسولوں اور پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کتابوں پر بھی۔ اس کے ولیوں سے محبت کرتے اور آپ کے تمام صحابہ سے خوش رہتے ہیں ۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

برادران اسلام!ایک اور میدان بھی ہے، جہاں اس امت کی اعتدال پسندی واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ اور وہ ہے عبادت کا میدان اور فطری تقاضوں کی پاسداری کا میدان ،روحانی تجرد ،اور مادی ارتکازمیں غلو کیے بغیر روح اور بدن کے بیچ نادر رشتے کی بقاء کا مسئلہ، چنانچہ یہاں نہ تو رہبانیت ہے اور نہ ہی صرف مادیت ،بلکہ فرمان حق تعالیٰ کی روشنی میں ایک ربط وسلیقگی ، اور اعتدال ومیانہ روی ہے:

( وَابْتَغِ فِيمَا آَتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآَخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ) [القصص: 77]

“اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول۔”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کے تبتل کی تردید کی اور اس آدمی کی نکیر کی ، جس نے دنیا کی پاکیزہ چیزوں کو اپنے لیے حرام کرلیا، فرمایا:

“أما إنی أخشاکم للہ وأتقاکم لہ، لکنی أصوم وأفطر وأصلی وأرقد وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی” (بخاری ومسلم)

“ میں تو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے لیے تقویٰ شعار ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور رات میں سوتا بھی ہوں۔ ساتھ ہی بیویوں سے ہمبستری بھی کرتا ہوں۔”

اور مسلم وغیرہ میں ہے:

“ھلک المتنطعون” “ غلو کرنے والے ہلاک ہوئے۔”

اور یہ بھی:

“إن ھذا الذین یسر، فأوغلوا فیہ برفق ولن یشاد الدین أحد إلا غلبہ”

“یہ دین آسان ہے اس لیے اس میں نرمی وآسانی سے داخل ہوؤ۔ اور جو دین میں بےجا سختی کرےگا تو دین اس پر غالب آجائےگا۔”

اسی طرح اسلام نے اپنے پیرؤوں کو ہر طرح کی تیرگی، بہکاوے اور آوارگی سے بازرکھا ہے۔ جو انسانی وجود کے مقصد وغایت میں خلل ڈالتی ہیں۔ انسا نی حقوق کو پامال کرتی اور روح وبد ن کے تقاضوں کے درمیان توازن باقی رکھنے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔

جو لوگ مادی پالیسیوں اور تقاضوں کی راہ پر گامزن رہتے ہیں انہیں ایک ایسے دین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو دنیوی رغبات اور ضروریات میں توازن اور سلیقگی کو بروئےکار لا سکے۔ انسا نیت کو معیار انسانیت تک لے جائے۔ اس کی اقدار اور روایات کو بروئے کار لائے۔ اور اسے جس مصیبت وپریشانی اور دقت وکٹھنائی کا سامنا ہے اس سے اس کو بچائے۔

برادران اسلام! کچھ اور اہم شعبے ہیں جن کے اندر اس امت کی اعتدال پسندی اور میانہ روی نمایاں ہے۔ ان کا تعلق تشریع تحلیل وتحریم ،منہج فکر ونظر اور طریق استدلال سے ہے۔ ان شعبوں میں شریعت اسلامیہ نے افراط وتفریط کے بیچ میانہ روی اختیار کی۔ واضح رہے کہ تحلیل وتحریم کے فیصلے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے ۔

“إن الحکم إلا للہ”

“فیصلے کا اختیار صرف اللہ کے لیے ہے۔”

“ألا لہ الخلق والأمر”

“اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق اور حاکم ہونا۔”

( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ) [الأعراف: 32]

“آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟”

منہج فکر ونظر اور استنباط میں اسلام نے حصول معرفت کے مصادر میں موازنہ کر کے صحیح منقول اور صریح معقول کے بیچ موافقت پیدا کی ہے۔ قواعد وضوابط سے رہنمائی اور شریعت کے اسرار اور رموز کی حکمت میں توافق کا راستہ اپنایا ہے۔ مصالح ومنافع اور خرابی ونقصان کے درمیان موازنہ کیا ہے۔

دوستو !حقوق ومعاملات میں بھی دین کی اعتدال روی نمایاں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“إن لنفسک علیک حقا، ولأھلک علیک حقا، ولجسدک علیک حقا، ولربک علیک حقا، فأعط کل ذی حق حقہ” (أحمد ومسلم)

“تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق ہے۔ تمہارے گھروالوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حقدار کا حق ادا کرو۔”

اقتصادی نظام میں بھی اسلام نے فرد اور معاشرے کی حریت وآزادی کا خیال رکھا ہے۔ چنانچہ وہ انفرادی ملکیت کا احترام کرتا، اسے باقی رکھتا اور اس کو اس طرح بنا کر رکھتا ہے کہ معاشرہ کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔ چنانچہ اسلام ، انفرادی مفاد کا لحاظ کرنے والی اور افراد کے حق کو پامال کرنے والی سرمایہ داری اور انفرادی ملکیت کو کالعدم قرار دینے والی اشتراکیت کے درمیان ایک معتدل موقف اپناتا ہے۔

اور انفاق وخرچ کرنے کے سلسلے میں میانہ روی اس فرمان الہٰی سے واضح ہے:

( وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا ) [الفرقان: 67]

“اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔”

برادران اسلام! کچھ امور ومسائل ایسے بھی ہیں جو اعتدال وتوازن کے خلاف ہیں۔ اس لیے لوگوں کو ان سے بچنا ضروری ہے انہی امور میں سے ہے۔

غلو کرنے والا وہی ہوتا ہے جو شرعی حکم کو تعداد یا کیفیت یا کمیت میں اضافہ وزیادتی کے ساتھ بجالاتا ہے۔ جیسے کوئی اللہ کی تسبیح ہر فرض نماز کے بعد 33 مرتبہ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے کے بدلے 100 دفع پڑھے، یا نماز پڑھتے یا مسجد میں جاتے وقت کوئی خاص طرح کا کپڑا پہنے۔

رہی بات بدعت کی، تو یہ بدعتی کو اللہ سبحانہ تعالیٰ پر استدراک (حکم الہٰی کو غلط ثابت ) کرنے اور اس نئی بات پر عمل پیرا ہونے کے لیے آمادہ کرتی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حکم دین میں غلو کرنے اور کوتاہی کرنے والوں کے بیچ درمیانی راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس بات کا بھی حکم دیتا ہے تو شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس میں دو چیزیں داخل کر دے افراط یا تفریط۔ (الوصیۃ الکبریٰ)

اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا : دو چیزیں ایسی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت وعظمت کی منافی ہیں۔

ایک، ایسی رخصت وچھوٹ جو چھوٹ والے آدمی کو کمال امتشال سے دور رکھتی ہے۔

دوم، غلو جو پہلی بات میں تفریط ہے اور دوسری میں افراط ہے۔

دین میں غلو کے بہت خراب آثار ونتائج ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ہے ہلاکت، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“ھلک المتنطعون، ھلک المتنطعون”

“غلو کرنے والے ہلاک ہوئے ، ہلا ک ہو ئے۔”

اور فرمایا تم سے پہلے والوں کو دین میں غلو نے ہی ہلا ک وبرباد کیا۔ چنانچہ غلو کرنے والے کا برا انجام آخرت سے پہلے دنیا ہی میں سامنے آجاتا ہے۔

ارہاب (دہشت پسندی) اور تکفیر، یعنی بےسوچے سمجھے کسی کو کافر قرار دینا بھی غلو ہی کا اثر ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی صورت وشبیہ کوبگاڑنا بھی اسی کا انجام ہے۔ چنانچہ آج غلو نے دین حنیف کی شکل ہی خراب کردی ہے۔ اور لوگوں کو اس سے بیزار کردیا ہے۔ اس دین میں عیب جوئی وطعنہ زنی کر نے کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ (فإنا للہ و إنا إلیہ راجعون)

معصیت کے شر وفساد میں لگنا بھی اسی غلو کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ ان خوارج کو دیکھیں کہ دین میں غلو نے انہیں مسلمانوں کو قتل کرنے اور کافروں اور ہویٰ پرستوں کو چھوڑ دینے پر مجبور کیا۔

عمل سے کٹ جانا، غلو فی الدین کا ہی انجام ہے۔ صحیح بخاری، باب مایکرہ من التشدید فی العبادۃ یعنی عبادت میں تشدد اختیار کرنے کی کراہت کا باب، کے متعلق حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: اس میں عبادت کے اندر میانہ روی کی ترغیب اور غلوکر نے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح نشاط کے ساتھ عبادت میں لگنے کا حکم بھی۔ (فتح الباری: 3/36)

اس لیے اللہ کے بندو !اللہ سے ڈرو اللہ اور اس کے رسول نے جس بات کا حکم دیا ہے اس کی پابندی کرو اور تفریط (کمی وکوتاہی ) دونوں سے بچوں، کیونکہ دونوں ہی مہلک ہیں۔ جتنی تمہارے اندر طاقت ہو اتنا ہی عمل کرو، حد سے تجاوز نہ کرو۔ تم عمل سے اُکتا جاؤگے لیکن اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتائےگا۔

اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر توازن اور میانہ روی پیدا کرے، اور ہمیں غلو اور انتہاپسندی سے محفوظ رکھے، وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالین۔