إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،
امر بالمعروف کا فریضہ ایک اہم عبادت ہے، بلکہ وراثت نبوت کی یہ ایک واضح تصویر ہے، لیکن ابلیس نے بہت سارے لوگوں کو بایں طور دھوکہ میں ڈال رکھا کہ ذکر واذکار، قراءت وتلاوت، نماز وروزہ اور دنیا سے بےرغبتی اور لاپرواہی ولاتعلقی وغیرہ جیسے کام انجام دینے کو، ان کے سامنے آراستہ کر کے پیش کردیا اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر والی عبادت کو بےقیمت وبےوقعت بنا کر رکھ دیا اور ان کے دل میں اس کی ادائیگی کا خیال تک نہیں آنے دیا، جبکہ ایسے لوگ وارثین انبیاء یعنی علماء کے نزدیک لوگوں میں سب سے کم تر درجہ کے دین والے ہوتے ہیں کیوں کہ دین نام ہے اللہ کا حکم بجا لانے کا، اس لیے اپنے اوپر واجب اللہ کے حق کو پامال کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں معصیت اور گناہ کے کام کرنے والے سے زیادہ خراب ہے کیوں کہ حکم کی پامالی، منہی عنہ (روکے گئےکام) کے ارتکاب سے زیادہ بڑا جرم ہے ۔
جب بعض طلبہ اور جوان افراد اصلاح کے منہج وطریق سے انحراف کرنے لگ جائیں اور مفسد وکلاکار لوگوں کے لیے معاشرتی میدان خالی چھوڑ دیں تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے اغراض ومقاصد کو برو کار لانے کی خاطر آپس میں خوب مسابقہ ومقابلہ کرتے ہیں اور ہم بیٹھ کر تماشہ دیکھتے اور وقت وحالات کوکوستے ہیں۔ اور جب یہ معاملہ خوب بڑھ جاتا ہے اور شر وخرابی ہر چہار سو پھیل جاتی ہے تو اس وقت ہم ایسے واقعات ومنکرات پر عام لوگوں کی طرح چونکتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے منکر پہ منکر ہوتا رہے، مگر دعوت کے مواقع اور اصلاح کے وسائل واسباب ان کو فراہم ہونے کے باوجود وہ ان سے غافل وبےخبر بنے رہتے ہیں۔ اللہ کے حرمات پر بھی ان کی غیرت وحمیت جوش میں نہیں آتی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
( وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) [آل عمران: 104]
“تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں۔”
اور فرمایا:
( كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ) [آل عمران: 110]
“تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔”
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
“والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر أو لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عقابا منہ، ثم تدعونہ فلا یستجاب لکم” (ترمذی، حدیث حسن)
“قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم یا توبھلائی کا حکم دوگے اور برائی سے روکوگے یا پھر قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب بھیجے۔ پھر جب تم اسے پکاروگے تووہ تمہاری سنےگا بھی نہیں۔”
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے حدود پر قائم رہنے اور ان کے اندر داخل ہو جانے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک کشتی پر قرعہ اندازی کی تو کچھ کو بالائی حصہ ملا اور کچھ کو نیچے کا۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے۔ تب ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم اپنے حصے میں سوراخ کر دیں اور اپنے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں تو اچھا ہوگا۔ اب اگر اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں اور انہیں علی حالہ چھوڑ دیں، تو سب کے سب ہلاک وبرباد ہوجائیں گے۔ اور اگر بروقت انہیں روک دیں تو وہ سب ہلاک ہونے سے بچ جائیں گے۔” (بخاری وغیرہ)
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آدمی میں کون سی بھلائی وخیر ہے جو اللہ کے محارم وحدود کی پامالی، دین اور سنت رسول صلی اللہ علیہ سلم سے بےرغبتی دیکھے اور وہ خاموش وگونگا شیطان بنا بیٹھا رہے۔ غلط کاموں کا حکم دینے والا جس طرح شیطان ناطق ہوتا ہے، اسی طرح غلط کاموں اور غلط باتوں پر خاموش رہنے والا اور ان سے منع نہ کرنے والا بھی گونگا شیطان ہے۔ ایسے لوگوں کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور انہیں اللہ کے غضب اور غصہ کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف اگر دل زندہ ہوتا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کو دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتے اور ان کے ازالہ کے لیے اپنا اثر وروخ اور جاہ واقتدار سب خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
( الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ) [الحج: 41]
“یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔”
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
( فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ ) [هود: 116]
“پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی، ﻇالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وه گنہگار تھے۔”
اور فرمایا:
( وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ) [هود: 117]
“آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکو کار ہوں۔”
اس وقت فرد اورمعاشرے کے خلاف کتنے برے اور مہلک انجام سامنے آئيں گے جب بعض طلبۂ دین اورصالح جوان معاشرہ کے اندر مختلف میدانوں میں شرکت سے گریز کریں گے اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے اصلا حی کاموں سے کنارہ کش رہیں گے، جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اصلاحی کاموں کی ادائیگی میں غفلت برتنے والوں کو عذاب کی وعید سنائی ہے۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تم بھلا ئی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب بھیجے ۔ پھر تم اسے پکارو تو وہ تمہاری سنے ہی نہیں۔
اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نےعرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے بیچ نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم ہلاک ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا:ہاں، جب گندگی اور گناہ زیادہ ہو جائیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
( فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ ) [هود: 116]
“پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی، ﻇالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وه گنہگار تھے۔”
آیت میں “مصلحون” کہا گیا ہے، “صالحون” نہیں۔ آیت اور حدیث پر غور کرنے سے صالح اور مصلح کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ چنانچہ صالح ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو سکتا ہے، بر خلاف مصلح کے جس کی اصلاحی کاوشوں سے لوگوں اور علاقوں کی ہلاکت و بربادی ٹال دی جاتی ہے۔
اور اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
( لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ ) [المائدة: 78]
“بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔”
برادران اسلام!منکر کو بدلنےیاختم کرنے سے پہلے یہ کام انجام دینے والے کے لیے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایک کہ یہ منکر شریعت میں مخطور وممنوع ہو۔ دوسرے یہ کہ منکر بروقت عام طور سے لوگوں میں پایا جاتا ہو۔ تیسرے یہ کہ یہ ان اجتہادی مسائل میں سے نہ ہو جن کے تعلق سے کوئی نص ہی نہ ہو یا ہو بھی تو اس میں خفاء اور ابہام ہو۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا:
“من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان”
“تم میں سے جو کوئی منکر دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدلے۔ اگر طاقت نہیں ہو تو اپنی زبان سے بدلے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے ہی برا سمجھے۔ مگر یہ ایمان کا سب سے کم تر درجہ ہے۔۔”
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“ما من نبی بعثہ اللہ فی أمۃ قبلی إلا کان لہ من أمتہ حواریون وأصحاب، یأخذون بسنتہ ویقتدون بأمرہ، ثم إنھا تخلف من بعدھم خلوف، یقولون ما لا یفعلون ویفعلون ما لا یؤمرون، فمن جاھدھم بیدہ فھو مومن، ومن جاھدھم بلسانہ فھو مومن ومن جاھدھم بقلبہ فھو مومن، ولیس وراء ذلک من الإیمان حبۃ خردل” (مسلم:50)
“حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھ سے پہلے جس امت میں بھی کسی نبی کو مبعوث کیا تو اسی میں سے نبی کے کچھ حواری، ہمنوا اور احباب واصحاب ایسے ضرور رہے جو اس کے طریقہ کو اپناتے اور اس کے حکم کے مطابق چلتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناکارے لوگ آئے جو اپنے کہنے کے مطابق کرتے نہیں اور کرتے بھی تو وہ کام جس کا ان کو حکم نہیں ہوتا تھا۔ ایسے لوگوں سے جو اپنے ہاتھ سے جہاد کرے تو وہ مومن ہے۔ جو اپنی زبان سے غلط کاموں سے روک کر جہاد کرے تو وہ بھی مومن ہے۔ اور جو اپنے دل سے برا مان کر جہاد کرے، تو وہ بھی مومن ہے۔ پھر اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان کا کوئی حصہ نہیں بچ رہتا۔”
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منکر کی نکیر کرنے کو اپنی امت کے لیے واجب قرار دیا ہے۔ تاکہ اس کی وجہ سے معروف جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے عام ہو۔ جب منکر کا انکار اس سے زیادہ منکر کو مسلتزم ہو تو اس وقت منکر کا انکار درست نہیں۔
صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امراء و ذمہ داران سے قتال کرنے کی اجازت مانگی تھی جو نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا:
“أ فلا نقتلھم؟”
“ کیا ہم ان کو قتل نہ کردیں؟”
تو آپ نے فرمایا کہ نہیں جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔”
اور آپ نے فرمایا:
“جو اپنے امیر کے اند ر کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے اور اس کی اطاعت سے گریز نہ کرے۔”
بڑے اور چھوٹے فتنوں کے تعلق سے اسلام کے خلاف پیش آنے والے واقعات وحالات پر جو بھی غور کرےگا وہ اس ضابطہ واصول کی بربادی اور منکر پر صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں اور فتنے دیکھےگا، بسااوقات حالات اور مصالح کا لحاظ کیے بغیر منکر کے ازالے کی کوشش شروع کر دیتا ہے، نتیجہ میں اس سے بڑی خرابیاں اور فتنے برپا ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بڑے بڑے منکرات دیکھتے تھے اور ان کو ختم نہیں کرپاتے تھے۔ اللہ نے جب مکہ فتح کرادیا اور وہ دار اسلام بن گیا تو خانۂ کعبہ کو بدلنے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر اس کو بنانے کا ارادہ ہوا، تو اس کی قدرت واختیار کے باوجود اور بڑی خرابی پیدا ہونے کے خدشہ نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ کیوں کہ ابھی اسلام میں نیا نیا داخل ہونے کے سبب قریش کو یہ ناگوار ہوتا، اسی طرح قوت کے بل پر امراء کے خلاف نکیرکی اجازت نہیں ملی۔ کیوں کہ اس سے بھی بڑی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ موجود تھا۔ اس طرح سے انکار منکر کے چار درجے ہیں:
پہلا : منکر ختم ہو اورمکمل ختم ہو۔
دوسرا : منکر کم ہو اور مکمل ختم نہ ہو۔
تیسرا : منکر کے انکار سے اسی جیسا دوسرا منکر سامنے آجائے۔
چوتھا : منکر کے انکار سے اس سے بڑی خرابی ہونے کا اندیشہ ہو۔
پہلے دو درجےتو مشروع، تیسرا مقام اجتہاد ہے اور چوتھا درجہ حرام ہے۔ (إعلام الموقعین)
اسی طرح منکر کے روکنے والے کے اندر درج ذیل صفات اور خوبیوں کا ہونا ضروری ہے:
وہ متقی اور پرہیز گار ہو۔
بالغ ہو۔ چنانچہ چھوٹے بچے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں۔
عادل ہو اور خاص طور سے عالم ہو۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام پر قادر ہو۔ کیوں کہ کسی کام کے لیے مکلف کیا جانا طاقت وقدرت کے ساتھ وابستہ ہے۔
اللہ کے بندو!ہم نے کتنے منکرات اور معصیت کے کام کھلم کھلا کیے؟ سودی معاملہ کتنا اعلانیہ کیا اور اس کے محلات وقلعے کھڑے کر لیے۔ مسلمانوں کے گھروں میں بگاڑ وخرابی پیدا ہوتے ہوئے دیکھ کر ہم خاموش رہے اور مسلم خواتین کی عزت وآبرو پامال ہوتی رہی اور ہم تماشائی بنے دیکھتے رہے۔ میرے بھائیو! یاد رکھو، اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے کام سے یوں ہی غفلت برتتے رہے تو ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اپنے ذمہ واجب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرو۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
أقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین، فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم۔